نا مکمل تحریر
میں جب کبھی ذیل کا واقعہ یاد کرتا ہوں، میرے ہونٹوں میں سوئیاں سی چُبھنے لگتی ہیں۔ ساری رات بارش ہوتی رہی تھی۔ جس کے باعث موسم خنک ہو گیا تھا۔ جب میں صبح سویرے غسل کے لیے ہوٹل سے باہر نکلا تو دُھلی ہوئی پہاڑیوں اور نہائے ہوئے ہرے بھرے چیڑوں کی تازگی دیکھ کر طبیعت پر وہی کیفیت پیدا ہُوئی جو خوبصورت کنواریوں کے جُھرمٹ میں بیٹھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بارش بند تھی البتہ ننھی ننھی پھوار پڑ رہی تھی۔ پہاڑیوں کے اونچے اونچے درختوں پر آوارہ بدلیاں اونگھ رہی تھیں گویا رات بھر برسنے کے بعد تھک کر چُور چُور ہو گئی ہیں۔ میں چشمے کی طرف روانہ ہُوا۔ کاندھے پر تولیہ تھا۔ ایک ہاتھ میں صابن دانی تھی، دوسرے میں نیکر۔ جب سڑک کا موڑ طے کرنے لگا تو آنکھوں کے سامنے دُھند ہی دُھند نظر آئی۔ بادل کا ایک بھولا بھٹکا ٹکڑا تھا جو شاید آسمانی فضا سے اُکتا کر اِدھر آ نکلا تھا۔ اِس بادل نے سڑک کے دوسرے حصے کو آنکھوں سے بالکل اوجھل کردیا تھا۔ میں نے اوپر آسمان کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی سپیدی ہی سپیدی نظر آئی اور ایسا معلوم ہُوا کہ اوپر سے کوئی دُھنکی ہوئی روئی بکھیر رہا ہے۔ اتنے میں ہوَا کے تیز جھونکوں نے اس سپیدی میں ارتعاش پیدا کیا اور اِس دھند میں سے دُور مثال بخارات علیحدہ ہونے لگے اور میری ننگی باہوں سے مَس ہُوئے۔ برف سے اٹھتے ہُوئے دھوئیں کی سردی کے احساس سے وہی کیفت پیدا ہوتی ہے جو ان بخارات نے پیدا کی۔ اس بادل میں سے گزرتے وقت سانس کے ذریعے سے یہ سپید سپید بخارات میرے اندر داخل ہو گئے جس سے پھیپھڑوں کو بڑی راحت محسوس ہوئی۔ میں نے جی بھر کے اس سے لُطف اُٹھایا۔ جب بادل کے اس ٹکڑے کو طے کرکے میں باہر آیا تو آنکھوں کو کچھ سجھائی نہ دیا۔ میرے چشمے کے شیشے کاغذ کے مانند سفید ہو گئے تھے۔ پھر ایکا ایکی مجھے سردی محسوس ہونے لگی اور جب میں نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا تو وہ شبنم آلود تکیے کی طرح گیلے ہورہے تھے۔ میں غُسل خانے کے معاملے میں بے حد سست ہوں اور سردیوں کے موسم میں تو روزانہ غسل کا میں بالکل قائل نہیں۔ دراصل نہانے دھونے کا فلسفہ میری سمجھ سے ہمیشہ بالاتر رہا ہے۔ غسل کا مطلب یہ ہے کہ غلاظت دُور کی جائے اور روز نہانے کا یہ مطلب ہوا کہ آدمی رات۔ میں غلیظ اور گندہ ہو جاتا ہے۔ ہاتھ منہ دھو لیا جائے، پیرصاف کرلیے جائیں، سر کے بال دھو لیے جائیں اس لیے کہ یہ سب چیزیں جلدی میلی ہو سکتی ہیں۔ مگر ہر روز بدن کیوں صاف کیا جائے جب کہ یہ بہت دیر کے بعد میلا ہوتا ہے۔ گرمیوں میں تو خیر میں نہانے کا مطلب سمجھ سکتا ہُوں مگر سردیوں میں اس کا کوئی مصرف مجھے نظر نہیں آتا۔ آخر کیا مصیبت پڑی ہے کہ ہر روز صبح سویرے انسان غسل خانے میں جائے۔ سردی کے مارے پورے دو گھنٹوں تک دانت بجتے رہیں، انگلیاں سُن ہو جائیں، ناک برف کی ڈلی بن جائے۔ غسل نہ ہوا، اچھی خاصی مصیبت ہوئی۔ غسل کے بارے میں اب بھی میرا یہی خیال ہے، لیکن جس پہاڑی گاؤں کا میں ذکر کررہا ہوں۔ وہاں کی فضا ہی کچھ اس قسم کی تھی کہ جو چیزیں مجھے اب مہمل نظر آتی ہیں یا اس سے پہلے نظر آیا کرتی تھیں وہاں با معنی دکھائی دیتی تھیں۔ اس غسل ہی کو لیجئے۔ اس پہاڑی گاؤں میں جتنا عرصہ میں رہا ہر روز میرا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ نہاؤں اور دیر تک نہاتا رہوں۔ چشمے پر پہنچ کر میں نے کپڑے اتارے۔ نیکر پہنچی اور جب پانی کی اس گرتی ہوئی دھار کے پاس گیا جو پتھروں پر گر کر ننھے ننھے چھینٹے اُڑا رہی تھی تو پانی کی ایک سرد بوند میری پیٹھ پر آپڑی۔ میں تڑپ کر ایک طرف ہٹ گیا۔ جہاں بوند گری تھی اس جگہ گدگدی پرکار کی نوک کی طرح چُبھی اور سارے جسم پر پھیل گئی۔ میں سِمٹا، کانپا اور سوچنے لگا۔ مجھے واقعی نہانا چاہیے یا کہ نہیں۔ قریب تھا کہ میں باغی ہو جاؤں لیکن آس پاس نگاہ دوڑائی تو ہر شے نہائی ہوئی نظر آئی چنانچہ جو باغیانہ خیال میرے دماغ میں اس شریر بوند نے پیدا کیے تھے ٹھنڈے ہو گئے۔ سرد پانی کی گُدگُدیاں شروع شروع میں تو مجھے بہت ناگوار گزریں مگر جب میں جی کڑاکر کے دھارکے نیچے بیٹھ گیا تو وہ لطف آیا کہ بیان نہیں کرسکتا۔ دونوں ہاتھوں کے ساتھ زور زور سے پانی کے چھینٹے اُڑانے سے سردی کی شدت کم ہو جاتی تھی، چنانچہ جب میں نے یہ گُر معلوم کرلیا تو پھر اس لطف میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ سر پر پانی کی موٹی دھار نے عجیب کیفت پیدا کردی۔ پھر جب پانی کے دباؤ سے بال پیشانی پر سے نیچے لٹک آئے اور انھوں نے آنکھوں اور منہ میں گھسنا شروع کردیا تو زور زور سے پھونکیں مار کر ان کو ہٹانے کی ناکام سعی نے مزا اور بھی دوبالا کردیا۔ کبھی کبھی ڈوب کر ابھرتے ہوئے آدمی کا احساس بھی مجھے ہوا اور میں نے سوچا کہ جو لوگ ڈوب کر مر جاتے ہیں انکو ایسی موت میں بے حد لُطف آتا ہو گا۔ چشمے کا پانی آنسوؤں کی طرح شفاف تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میرے اردگرد بُلبلوں اور پانی کے چھینٹوں کا مشاعرہ ہورہا ہے۔ غسل سے فارغ ہوکر میں نے تولیے سے بدن پونچھا اور سردی کا احساس کم کرنے کے لیے دھیمے دھیمے سروں میں ایک گیت گنگنانا شروع کردیا۔ کبھی کبھی یہ سُریلی گنگناہٹ ہوا کے جھونکوں سے مرتعش ہو جاتی اور میں یہ سمجھتا کہ میرے بجائے کوئی اور آدمی بہت دُور گا رہا ہے، اس پر میں تولیے کو زیادہ زور کے ساتھ بدن پر ملنے لگتا۔ بدن خشک ہو گیا تو میں نے کپڑے پہنے۔ اس اثنا میں بوندا باندی شروع ہو گئی۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ میرے عین اوپر بادل کا ایک اسفنج نما ٹکڑا چھتری کی طرح پھیلا ہُوا تھا۔ میں نے جلدی جلدی پہاڑی پر سے نیچے اترنا شروع کیا اور فوراً ہی کودتا پھاندتا سڑک میں اتر آیا۔ متوقع بارش سے بچنے کے لیے میں نے قدم تیز کردیئے۔ لیکن ابھی سڑک پر بمشکل ایک جریب کا فاصلہ طے کرنے پایا تھا کہ
’’اے بکری بکری‘‘
کی آواز بلند ہُوئی پھر اس کے ساتھ ہی دور پہاڑیوں نے اس آواز کو دبوچ کر دوبارہ ہوا میں اچھال دیا۔ میرے جی میں آئی کہ میں بھی اس آواز کو گیند کی طرح دبوچ لوں اور ہمیشہ کے لیے اپنی جیب میں ڈال لوں۔ میں ٹھہر گیا۔ وہی مانوس دل نواز صدا تھی جو اس سے قبل میں کئی مرتبہ سُن چکا تھا۔ بظاہر
’’اے بکری بکری‘‘
تین معمولی لفظ ہیں اور کاغذ پر یہ کوئی ایسا تصور پیش نہیں کرتے جو انوکھا اور حسین ہو مگر واقعہ ہے کہ میرے لیے ان میں وہ سب کچھ تھا جو روح کو مسرُور کرسکتا ہے جونہی یہ آواز میری سماعت سے مَس ہوتی مجھے یہ معلوم ہوتا کہ پہاڑ کی چھاتی میں سے صدیوں کی رُکی ہُوئی آواز نکلی ہے اور سیدھی آسمان تک پہنچ گئی ہے۔
’’اے‘‘
بالکل دھیمی آواز میں اور
’’بکری بکری‘‘
بلند اور فلک رس سُروں میں۔ ایک لمحہ کے لیے یہ نعرہ شباب پہاڑیوں کی سنگین دیواروں میں گونجتا ڈوبتا، ابھرتا، تھرتھراتا اور رباب کے تاروں کی آخری لرزش کی طرح کانپتا فضا میں گُھل مل جاتا۔ کالی کالی بدلیاں چھا رہی تھیں۔ فضا نم آلود تھی۔ ہوا کے جھونکوں میں اس نمی نے غنودگی کی سی کیفیت پیدا کردی تھی میں نے اوپر پہاڑی پر اگی ہُوئی ہری ہری جھاڑیوں کی طرف دیکھا اور ان کے عقب میں مجھے دو تین سفید بکریاں نظر آئیں۔ میں نے اوپر چڑھنا شروع کردیا۔ ایک منہ زور بکری وزیر کو گھسیٹے لیے جارہی تھی اور وہ اس کو ڈانٹ بتانے کے لیے
’’اے، بکری بکری‘‘
پکار رہی تھی۔ اس کا منہ غصہ اور زور لگانے کے باعث پگھلے ہُوئے تابنے کی رنگت اختیار کرگیا تھا۔ بکری کے گلے میں بندھی ہوئی رسی کو پوری طاقت سے کھینچنے میں اسکا سینہ غیر معلوم طور پر عریاں ہو گیا تھا۔ سر پیچھے جھکایا تھا۔ دونوں ہاتھ آگے بڑھے ہُوئے تھے، سر پرسے دوپٹہ اُتر کر باہوں میں چلا آیا تھا۔ پیشانی پر سیاہ بالوں کی لٹیں بل کھاتی ہُوئی سنپولیاں معلوم ہورہی تھیں۔ ایک سبز جھاڑی کے پاس پہنچ کر بکری دفعتاً ٹھہر گئی اور اس کے نرم نرم پتوں کو اپنی تھوتھنی سے سونگھنا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کروزیر نے اطمینان کا سانس لیا اور اپنا اُترا ہُوا دوپٹہ ایک بڑے سے پتھر پررکھ کر اس نے پاس والے درخت کے تنے سے بکری کے گلے میں بندھی ہُوئی رسی باندھی اور دوسرے پیڑ کی جھکی ہوئی ٹہنی پکڑ کر جھولا جھولنے لگی۔ میں جھاڑیوں کے پیچھے کھڑا تھا۔ بازو اُوپر اُٹھانے کے باعث اس کی کھلی آستین نیچے ڈھلک آئی۔ کپڑے کے یہ چھلکے سے جب اترے تو اس کے بازو کندھوں تک عریاں ہو گئے۔ بڑی خوبصورت باہیں تھیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا کو ہاتھی کے دو بڑے دانت اوپر کو اُٹھے ہُوئے ہیں۔ بے داغ، ہموار اور زندگی سے بھرپور۔ وہ جُھولا جُھول رہی تھی اور اس کے دونوں بازو کچھ اس انداز سے اوپر کی جانب اٹھے ہوئے تھے کہ مجھے یہ اندیشہ لاحق ہو ا کہ وہ آسمان کی طرف پرواز کر جائے گی۔ جھاڑیوں کے عقب سے نکل کر میں اس کے سامنے آ گیا۔ دفعتاً اس نے میری طرف نگاہیں اٹھائی۔ سٹ پٹائی، ٹہنی کو اپنے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کردیا۔ گری، سنبھلی اور حلق میں سے ایک مدھم چیخ نکالتی دوڑ کر دوپٹہ لینے کے لیے پتھر کی طرف بڑھی۔ مگر دوپٹہ میری بغل میں تھا۔ اس نے دوپٹہ کی تلاش میں یہ جانتے بوجھتے کہ وہ میری بغل میں ہے، اِدھر اُدھر دیکھا اور مسکرا دی۔ اس کی آنکھوں میں حیا کے گلابی ڈورے اُبھر آئے۔ گال اور سرخ ہو گئے۔ اور وہ سمٹنے کی کوشش کرنے لگی۔ دونوں بازوؤں کی مدد سے اس نے اپنے سینے کی شوخیوں کو چھپا لیا اور انھیں اور اور زیادہ چھپانے کی کوشش کرتی وہ پتھر پر بیٹھ گئی۔ اس پر بھی جب اسے اطمینان نہ ہوا تو اس نے گھٹنے اُوپر کرلیے اور بگڑ کر مجھے سے کہنے لگی۔
’’یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ میرا دوپٹہ لائیے۔ ‘‘
میں بڑھا اور بغل میں سے دوپٹہ نکال کر اس کے گھٹنے پر رکھ دیا۔ مجھے اس کے بیٹھنے کا انداز بہت پسند آیا۔ چنانچہ میں بھی اسی طرح اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اس کی طرف غور سے دیکھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وزیر جوان آوازوں کا ایک بہت بڑا انبار ہے اور میں۔ اور میں خدا معلوم کیا ہوں۔ اس کو ہاتھ لگاؤں گا تو وہ باجے کی طرح بجنا شروع ہو جائے گی۔ ایسے سُر اس میں سے نکلیں گے جو مجھے اُوپر بہت اُوپر لے جائیں گے اور زمین اور آسمان کے درمیان کسی ایسی جگہ معلق کردیں گے جہاں میں کوئی آواز سن نہ سکوں گا۔ وزیر نے مجھے جنگلی بلی کی طرح گُھور کر دیکھا گویا کہنا چاہتی ہے۔ ارے جاؤ یہاں دھرنا دے کر کیوں بیٹھ گئے ہو۔ میں نے اُس کے اس خاموش حکم کی کوئی پرواہ نہ کی اور کہا:
’’چشمے سے واپس آرہا تھا کہ تمہاری آواز سنی بے اختیار کھنچا چلا آیا۔ وزیر۔ تمہاری یہ آواز مجھے یقیناً پاگل بنا دے گی۔ جانتی ہو پاگل آدمی بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ ‘‘
میری یہ بات سُن کر اس کو حیرت ہوئی۔
’’یہ کیا پاگل پن ہے۔ میری آواز کسی کو کیوں پاگل بنانے لگی۔ ‘‘
میں نے کہا۔
’’جیسے کچھ جانتی ہی نہیں ہو۔ دنیا میں یہ راگ راگنیاں کہاں سے آئی ہیں۔ لیکن چھوڑو اس قصے کو۔ یہ بتاؤ، میری ایک بات مانو گی؟‘‘
’’مان لوں گی، پر آپ یہ تو کہیئے بات کیا ہے؟‘‘
’’ایک دفعہ میری خاطر، اے، بکری بکری، کا نعرہ بُلند کردو۔ ‘‘
مجھے ہاتھ سے دھکا دے کر اس نے تیز لہجہ میں کہا۔
’’یہ کیا پاگل پن ہے۔، بنانے کے لیے صرف ایک میں ہی رہ گئی ہوں۔ ‘‘
’’وزیر، بخدا میں تمہیں بنا نہیں رہا۔ مجھے تمہاری یہ آواز پسند ہے۔ جھوٹ کہوں تو۔ لے اب مان بھی جاؤ۔ ایک بار!‘‘
’’جی نہیں۔ ‘‘
’’میں تم سے التجا کرتا ہُوں۔ ‘‘
’’میں نے یہ آواز نہ کبھی نکالی ہے اور نہ اب نکالوں گی۔ ‘‘
’’میں ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں۔ ‘‘
’’یااللہ۔ یہ کیا مصیبت ہے۔ ‘‘
وزیر نے اپنا بدن سکیڑ لیا۔
’’اور اگر نہ مانوں تو۔ یعنی یہ بھی کیا ضروری ہے کہ میں اسی وقت آپ کے کہنے پر بیکار چلانا شروع کردوں۔ آپ تو خواہ مخواہ چھیڑ خانی کررہے ہیں اورمیں نگوڑی جانے کیا سمجھ رہی ہوں۔ بھئی ہو گا، ہمیں یہ مذاق اچھا نہیں لگتا۔ ‘‘
’’وزیر!‘‘
میں نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
’’میری طرف دیکھو۔ میرے چہرے سے تم اس بات کا اطمینان کرسکتی ہو کہ میں ہنسی مذاق نہیں کررہا۔ ‘‘
اس نے میرے چہرے کی طرف مصنوعی غور سے دیکھا اور میری ناک پر اُنگلی رکھ کر کہا۔
’’آپکی ناک پر یہ ننھا سا تِل کتنا بھلا دکھائی دیتا ہے۔ ‘‘
اُس وقت میرے جی میں آئی کہ اس پتھر پر جس پر وہ بیٹھی ہوئی ہے میں ناک گھسنا شروع کردوں تاکہ وہ ننھا سا تل ہمیشہ کے لیے مٹ جائے۔ وزیر نے میری طرف دیکھا تو وہ یہ سمجھی کہ میں روٹھنے کا ارادہ کررہا ہوں، چنانچہ اس نے فوراً اپنی بکریوں کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا۔
’’بابا، آپ خفا نہ ہوجایئے۔ قریب تھا کہ وہ اپنی مخصوص آواز بلند کرے کہ ایکا ایکی جھجک اس پر غالب آگئی۔ بہت زیادہ شرما کر اس نے اپنی گردن جُھکا لی
’’پر میں پوچھتی ہُوں اس میں خاص بات ہی کیا ہے۔ ‘‘
میں نے بگڑ کر کہا۔
’’وزیر، تم اب باتیں نہ بناؤ۔ ‘‘
دوسری طرف منہ کرکے اس نے ایکا ایکی بلند آواز میں
’’اے بکری بکری‘‘
پُکارا۔ اس کے بعد شرمیلی ہنسی کا ایک فوارہ سا اس کے منہ سے چھوٹ پڑا۔ میں بلندیوں میں پرواز کرگیا۔ کتنی صاف اور شفاف آوازتھی۔ دُھلی فضا میں اس کی گونج دیر تک دُور، نظر سے اوجھل ہو جانے والے پرندوں کے پروں کی طرح چمکتی رہی۔ پھر جذب ہو گئی۔ وزیر کی طرف میں نے دیکھا۔ اب وہ خاموش تھی۔ اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر صاف تھا۔ آنکھیں نہاتی ہوئی چڑیوں کی طرح بے قرار تھیں۔ ہنسنے کے باعث ان میں آنسو بھر آئے تھے۔ ہونٹ اس انداز سے کُھلے ہوئے تھے کہ میرے ہونٹوں میں سرسراہٹ پیدا ہو گئی۔ خدا معلوم کیا ہوا میں نے وزیر کو اپنے بازوؤں میں لے لیا۔ اس کا سر میری گودی میں ڈول آیا۔ لیکن ایکا ایکی زور سے وہ اپنا بازو میرے جھکے ہُوئے سر اور اپنے متحیر چہرے کے درمیان لے آئی اور دھڑکتے ہُوئے لہجہ میں کہنے۔
’’ہٹائیے، ہٹائیے ان ہونٹوں کو!‘‘
میری گود سے نکل کر وہ بھاگ گئی اور میرے ہونٹوں کی تحریر نامکمل رہ گئی۔ اس واقعہ کو ایک زمانہ گزر چکا ہے، مگر جب کبھی میں اس کو یاد کرتا ہوں میرے ہونٹوں میں سوئیاں سی چُبھنے لگتی ہیں۔ یہ نامکمل بوسہ ہمیشہ میرے ہونٹوں پر اٹکا رہے گا۔
سعادت حسن منٹو