- Advertisement -

سفرنامہ بھارت – آخری قسط

ایک سفرنامہ از حسن عباسی

سفر نامہ بھارت

حسن عباسی

اُس آنکھ کا نشہ کافی ہے

ممتاز محل کو اپنا کلام سُنانے کا حوصلہ کہاں سے لاتا۔

تاج محل کے سنگِ مرمر جیسا تو ایک مصرعہ بھی نہ ہوا۔

اُس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سُخن کہے

میں نے تو اُس کے پاﺅں میں سارا کلام رکھ دیا

حالانکہ وہ کلام تو اس قابل بھی نہ تھا۔

کچھ دیر بعد ارجمند بانو اپنے ناز و انداز دکھاتی، اپنے حُسن سے تاج محل کو شرماتی دوبارہ جا کر اپنی ابدی آرام گاہ میں سو گئی۔

شاہ جہاں کی زندگی کے آخری دن مجھے یاد آنے لگے۔

چاروں طرف اُداسی پھیلتی گئی۔

شاہ نے گوشہ تنہائی میں جو شب و روز گزارے وہ بہت اذیت ناک تھے۔

اُس کے دل پر کیا گذری ہوگی۔

شاہ نے ممتاز محل کی یاد میں کتنے آنسو بہائے ہوں گے۔

جب وہ آگرہ قلعہ کے قید خانے سے اپنے تعمیر کردہ اس عظیم شاہکار کو حسرت و یاس سے دیکھتا ہوگا تو اُسے کتنا دکھ ہوتا ہوگا ممتاز محل کے ساتھ محبت بھرے گذرے لمحوں کو یاد کرتا ہوگا تو دل لہو سے بھر جاتا ہوگا۔

بادشاہوں کے جیون بھی عجیب ہوتے ہیں۔

جتنی بڑی خوشیاں اتنے بڑے دکھ۔

انڈین پولیس کا خیال آتے ہی ایسا لگا جیسے میں بھی آگرہ فورٹ کے قید خانے سے تاج محل کا نظارہ کر رہا ہوں۔

تاج محل کو جتنے سیاح دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے دیکھنے لائق تھے۔ ہر چہرے پر حیرانی، تجسس اور چمک منفرد تھی۔ انداز جدا تھا۔

اُن میں ایک دراز قد اور دراز زلف گوری تاج کے ساتھ لگ کر اس طرح کھڑی تھی۔

جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

تین باتیں ہو سکتی تھیں۔

یا تو وہ اس ملال میں تھی کہ یہ تاج محل اُس کے لےے کیوں نہیں بنایا گیا یا وہ سوچ رہی تھی کہ اسے بھی کوہِ نور ہیرے کی طرح چرایا کیوں نہیں گیا۔

ہر خوبصورت اور قیمتی چیز پر ہمارا حق ہے

تو یہ ہندوستان کے حصہ میں کیوں؟

یا پھر وہ اپنے بوائے فرینڈ یا لوّر کو یاد کر رہی تھی۔

اُداس اُداس سی تھی۔

خوبصورت آنکھوں میں اُتر کر اُداسی بھی خوبصورت ہو جاتی ہے۔

حسین چہروں پر غم بھی رنگ کی طرح چڑھتا ہے اُن کو پہلے سے بھی زیادہ حسین بنا دیتا ہے۔

اُس نے ٹائٹ بلیک جینز اور پنک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

محبت کے رنگ میں رنگی ہوئی۔

تاج محل کے پہلو میں مشرق و مغرب کا حُسن آپس میں گھل مل گیا تھا۔

میں اُسے دور سے دیکھتا رہا، قریب نہیں گیا۔

وہ اپنے دھیان میں بیٹھی مجھے اچھی لگی تھی۔

شاخ بدن سے لگتا ہے

مٹی راجھستانی ہے

یہ محبت کی یادگار دلوں کو ملانے والی ہے۔

جدا کرنے والی نہیں۔

ہم سب دوستوں نے ایک دوسرے کو چند لمحوں میں تلاش کر لیا

جیل یاترا سے بچنے کے لےے کچھ کرنا ضروری تھا۔

ستیہ جی کے علاوہ وہاں ہمارا کون تھا۔

فیصلہ یہی ہوا کہ اُن کو فون کیا جائے۔

پر کیسے کیا جائے؟

پولیس والوں کی درخواست، منت، سماجت اور کیا؟

چلنے کیلئے اٹھے تو دل بیٹھ گیا۔

تاج محل سے جانے کا تصور بہت بھیانک تھا۔

مگر جانا تو تھا۔

سو ہم تاج محل کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔

مجھے جمناندی کی قسمت پر ایک بار پھر رشک آ رہا تھا جو بڑے مزے سے تاج محل کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔

اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اور اِدھر دِل۔

خلیل جبران نے سچ کہا ہے:

”میرے محبوب کا گھر پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ جب میں اُس سے ملنے جاتا ہوں تو پہاڑ پر چڑھتے ہوئے پتہ بھی نہیں چلتا یوں لگتا ہے جیسے اُتر رہا ہوں اور جب مل کر واپس آتا ہوں تو قدم اُٹھانا مشکل ہو جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑ پر چڑھ رہا ہوں، میرے قدم بھی نہیں اٹھتے تھے“۔

جیسے ایڑیوں میں پارہ بھر گیا ہو۔

پھر بھی وہ سب زنجیریں جنھوں نے جکڑ رکھا تھا ایک ایک کرکے ٹوٹ رہیں تھیں اور تاج محل مجھ سے دور ہوتا جا رہا تھا۔

اُس وقت کے ہوم منسٹر ایل-کے ایڈوانی کے ایک فون نے ہمیں چھ ماہ کی قید بامشقت سے تو بچا لیا مگر تاج محل کے پہلو سے اُٹھ کر آنے والی سزا سے کوئی نہ بچا سکا۔

جس طرف جاﺅں وہی عالم تنہائی ہے

جتنا چاہا تھا تمہیں اتنی سزا پائی ہے

بھری دنیا میں جی نہیں لگ رہا تھا۔

دوست پی رہے تھے۔

بھنگڑے ڈال رہے تھے۔

رہائی کو Celebrate کر رہے تھے۔

میرے سامنے بوتل پڑی تھی۔

میں بھی جدائی کو Celebrate کر رہا تھا۔

مگر اُن آنکھوں کو یاد کر کے۔

تم اپنا جشن منا لینا میں اُس کی یاد مناﺅں گا

اُس آنکھ کا نشہ کافی ہے یہ بوتل موتل رہنے دو

پجارو دہلی جانے والی سڑک پر یوں جھوم جھوم کے جا رہی تھی جیسے اُس نے بھی پی رکھی ہو حالانکہ پی تو سردار جی نے رکھی تھی مگر جھوم پجارو رہی تھی خالد احمد کے کالم کی طرح مجھے اس بات کی سمجھ بھی آج تک نہیں آئی۔

میں نے کہیں پڑھا تھا غم کے موقع پر اگر رونا نہ آئے تو کوئی بات نہیں، ہنسنا نہیں چاہےے۔

سب ہی گاڑی میں مستی کر رہے تھے، گا رہے تھے، لطیفے سُنا رہے تھے میں شیشے سے باہر آگرہ کی طرف تیزی سے بھاگتے منظروں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر یہ منظر میری آنکھوں میں تیرنے لگے اور پھر ایک ایک کرکے ڈوب گئے۔

شام گہری سے گہری ہوتی گئی اور اُس نے شب کا پیرہن پہن لیا۔

سردار جی نے پجارو اچانک ایک ہوٹل پر روک دی۔ وہ ہوٹل بھی سرداروں کا تھا۔ لاہور میں جس طرح پٹھان رکشہ ڈرائیور اکثر پٹھانوں کے ہوٹل سے چائے پیتے اور کھانا کھاتے ہیں یہ اُس طرح کی سوچ تھی۔

ساگ، پراٹھے اور مکھن ٹیبل پر دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ پہلی بار سردار جی کی عظمت کا قائل ہونا پڑا۔

ساگ تو پنجاب کا تھا مگر پراٹھا اُڑیسہ کا لگ رہا تھا، چھوٹا دبلا پتلا کمزور۔

ملک میں یا ملک سے باہر ہم پاکستانی جہاں بھی جائیں پکڑے جاتے ہیں تاج محل سے رہائی ملی تو ساگ اور پراٹھوں نے پکڑوا دیا۔ جب ہم آٹھ لوگوں نے چالیس پراٹھے کھانے کے بعد مزید پراٹھوں کے لےے ویٹر کو آواز دی تو ہوٹل کے مالک بذاتِ خود ہماری زیارت کے لےے تشریف لائے صرف یہ دیکھنے کے لےے کہ یہ کس ملک کے باشندے اُن کے ہوٹل کے پراٹھوں کو شرف بخش رہے ہیں۔ اُنھیں دیدار کرتے ہی پتہ چل گیا کہ پاکستانی ”فوجاں نیں“۔

وہ اُس وقت تو پسپائی اختیار کر گئے مگر بل بناتے ہوئے بھرپور حملہ کیا اور ہماری جیبیں ہلکی کر دیں۔ ساگ پراٹھے 1200 روپے انڈین کرنسی میں تھے۔

میں نے عابد گوندل سے کہا:

یہ بل پاکستان دشمنی کا دستاویزی ثبوت ہے۔

اس نے ہمیشہ کی طرح نفی میں سر ہلایا اور جواب دیا:

”یہ آپ کے تاج محل کی طرف جانے والے راستے کی برکات ہیں“۔ ”آپ کے تاج محل“ کے الفاظ سُن کر ہم خود کو مابدولت سمجھنے لگے اور کمال فیاضی سے اپنے حصہ کی رقم عابد گوندل کی ہتھیلی پہ رکھ دی۔

ہم رات گئے آگرہ سے دِلّی لوٹے تو یہ خیال آتے ہی دل بہت خوش ہوا کہ کل ہماری پاکستان روانگی ہے انڈیا میں گزرے تیرہ دن ہمیں تیرہ صدیوں کے برابر لگ رہے تھے وطن کی یاد نے آنکھیں بھگو دیں نجانے کب نیند آگئی۔

یہ تو مفت کی رسوائی تھی

صبح اُٹھ کر ہم نے لاجپت بھون کے گراﺅنڈ میںبچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ اس دن کے بعد ہم نے سوچا آئندہ کبھی بچوں کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلیں گے ہمارے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا تھا بہت چوکے چھکے پڑے تھے یہ تو مفت کی رسوائی تھی اس سے بہترہے بندہ کسی لڑکی کے چکر میں رسوا ہو۔

کمرے میںآکر ہم نے اپنے بیگ سے وہ لمبی لمبی فرمائشی فہرستیں نکالیں جو دوستوں، رشتہ داروں، بیگم، بچوں اور ہمسایوں نے آتے وقت ہمارے ہاتھ میں تھما دیں تھیں اور آنہ ٹکہ دےے بغیر بار بار تاکید بھی کردی کہ خالی ہاتھ مت آنا۔ ہم نے ان تمام لِسٹوں میں سے بیگم اور بچوں کے فرمائشی پروگرام پر نشان لگایا کیونکہ پاکستان پہنچ کر ہم نے سیدھا گھر جانا تھا۔ اس لےے ان کی چیزیں بہرحال ہمیں خریدنی تھیں۔

ساڑھیوں اور مصنوعی جیولری کے علاوہ انڈیا میں پاکستان سے کچھ الگ نہیں جو خریدا جا سکے سو ہم نے بھی اسی پر اکتفا کیا۔ نیز اب ہندو بنیئے سیانے ہو گئے ہیں پاکستانی چہرہ تو ویسے بھی دور سے پہچانا جاتا ہے سو قیمت تین گنا زیادہ مانگتے ہیں۔ یہاں کے دوکاندار بھی اب ہمارے ہاں کے پٹھانوں کی طرح ”اُسترے“ بن گئے ہیں۔

واپس پاکستان ہمیں ریل گاڑی سے جانا تھا اس لےے ہم بہت جذباتی ہو رہے تھے جلدی میں بہت سی یادیں لاجپت بھون کے کمرے میں رکھی رہ گئیں کچھ چہرے دیواروں سے اُتارنا بھول گئے صرف وہی یادیں ساتھ رہیں جو سانسوں میں خوشبو کی طرح بس گئیں تھیں صرف وہی چہرے ساتھ آئے جو آنکھوں میں خوابوں کی طرح ٹھہر گئے تھے۔

دلّی اسٹیشن دور سے لاہور اسٹیشن جیسا لگ رہا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ”بلّے بھئی بلّے“۔ اتنی رونق، اتنی گہما گہمی، اتنے پلیٹ فارم، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کدھر جائیں؟

مختلف پلیٹ فارموں پر مُدھر آوازوں میں بغیر کسی توقف کے اناونسمنٹ جاری تھی۔ اگرچہ اس خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی کہ ہم اپنے گھر اپنے دیس پاکستان جا رہے تھے پھر بھی جب اُس بھیگی ہوئی سرد رات میں ٹرین نے دِلّی کا ریلوے اسٹیشن چھوڑا تو دِل کو بہت دُکھ ہوا۔

ہماری بھیگی آنکھوں میں انڈیا میں گزرے شب و روز کی فلم چلنے لگی پیچھے بھاگتے منظروں میں ہم نے ایک ایک چہرے کو الوداع کہا ایزون کی ہنسی کو الوداع کہا۔ پلّاوی کی اداﺅں کو الوداع کہا۔ پرساد کی باتوں کو الوداع کہا ستیہ جی کی شخصیت کو الوداع کہا اور خیالوں ہی خیالوں میں نجانے کس وقت ہماری آنکھ لگ گئی۔

صبح ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ ہم اٹاری ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ سورج نکلا تو اس کی کرنوں کے ساتھ ڈاکٹر ایس-اے محال اور اُن کی بیگم امرتسر سے ہمارے لےے ناشتہ لے کر آئے ہوئے تھے وہ بھی پنجاب کا روایتی ناشتہ، ساگ، مکھن، پراٹھے، لسی سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بات کی خبر رکھنا کہ ہم فلاں ٹرین سے صبح اٹاری پہنچ رہے ہیں میزبانی کی عمدہ مثال تھی۔

اُنھوں نے اپنی باتوں، اخلاق، محبت اور دریا دلی سے سچ مچ ہمارے دِل جیت لیے تھے جب ٹرین اٹاری سے واہگہ میں داخل ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے اُس پار کے سب منظر گم ہو گئے کچھ چیزیں اپنی نہیں ہوتیں لیکن اُن کے کھو جانے کا دُکھ بہت ہوتا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
قرةالعین حیدر کا ایک اردو افسانہ