- Advertisement -

پسینہ

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

پسینہ
’’میرے اللہ!۔ آپ تو پسینے میں شرابور ہورہے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں۔ کوئی اتنا زیادہ تو پسینہ نہیں آیا۔ ‘‘

’’ٹھہریے میں تولیہ لے کر آؤں۔ ‘‘

’’تو لیے تو سارے دھوبی کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’تو میں اپنے دوپٹے ہی سے آپ کا پسینہ پونچھ دیتی ہوں۔ ‘‘

’’تمہارا دوپٹہ ریشمیں ہے۔ پسینہ جذب نہیں کرسکے گا۔ ‘‘

’’پسینے کے یہ قطرے مجھ سے نہیں دیکھے جاتے۔ آپ کا یہ کہنا ٹھیک ہے کہ ریشمیں کپڑا پانی جذب نہیں کرسکتا۔ لیکن میں آپ کا تولیہ ہوں۔ کیا میں آپ کا پسینہ خشک نہیں کرسکتی۔ ‘‘

’’آج گرمی زیادہ تھی۔ سائیکل پر یہاں آتے آتے میں قریب قریب بیہوش ہو گیا تھا۔ ‘‘

’’ہائے اللہ‘‘

’’نہیں۔ بس میں چند منٹوں میں ٹھیک ہو گیا۔ ایک دوست تھا، اس نے مجھے آموں کا شربت پلا دیا۔ ‘‘

’’آموں کا شربت بھی ہوتا ہے؟‘‘

’’ہرشے کا شربت بنایا جاسکتا ہے۔ ‘‘

’’میرا بھی؟‘‘

’’تمہارا شربت تو میں ہر روز پیتا ہوں۔ لیکن اس کا ذائقہ اچھا نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’شریر کہیں کے۔ ‘‘

’’شرارت تو تمہاری ہوتی ہے کہ تم مٹھاس میں کھٹائی ڈال دیتی ہو۔ ‘‘

’’کھٹائی تو آپ ڈ التے ہیں۔ میں تو مصری کی ڈلی ہوں۔ ‘‘

’’مانتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی۔ ‘‘

’’آپ مجھ سے وہ زیادہ نہ کیجیے۔ اِدھر آئیے، میں آپ کی ٹائی اُتاروں۔ ‘‘

’’آج اتنا تکلف کیوں کیا جارہا ہے؟‘‘

’’آپ محبت کو تکلف کہتے ہیں؟‘‘

’’اس کے متعلق میں تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا۔ ویسے میں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اتنی محبت کا اظہار تم نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ ‘‘

’’آپ محبت کو کیا جانیں۔ ‘‘

’’انسان اگر محبت ہی کو جان پہچان نہیں سکتا تو میں سمجھتا ہوں وہ حیوان بھی نہیں۔ کوئی بے حِس چیز ہے۔ پتھر ہے۔ سڑک پر گِرا ہوا روڑا ہے۔ ‘‘

’’اِدھر آئیے، میں آپ کی ٹائی اتاروں۔ ‘‘

’’اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ تکلف کی بات کیوں کرتے ہیں۔ میں نے کبھی آپ سے تکلف برتا ہے؟‘‘

’’آج پہلی مرتبہ۔ ‘‘

’’آپ اتنے ذہین ہیں۔ بتائیے اس تکلف کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’میں اتنا ذہین نہیں ہوں۔ ‘‘

’’آپ کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ ‘‘

’’جناب میں کسر نفسی سے کام نہیں لے رہا۔ ایک حقیقت تھی جو میں نے بیان کردی؟‘‘

’’میرے پاس تو آئیے، میں آپ کا پسینہ پونچھ دوں۔ گرمی میں بے حال ہوکے آرہے ہیں۔ ‘‘

’’کوئی اتنی زیادہ بے حالی نہیں۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ آج درجہ حرارت بہت بڑھا ہوا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ آج دس آدمی اس حدت کے باعث مر گئے ہیں۔ ‘‘

’’میں کہتی ہوں، آپ اتنے روپے خرچ کرتے ہیں۔ کیوں نہیں گھر میں ایک

’’کولر‘‘

لے آتے۔ ‘‘

’’کولر کی کیا ضرورت ہے؟ تم خود بہت بڑی کولر ہو۔ اتنی گرمی میں گھر آیا ہوں۔ تمہاری باتوں ہی نے مجھے ایسی ٹھنڈک پہنچا دی ہے جو سب سے بڑا کولر بھی نہیں پہنچا سکتا۔ ‘‘

’’آپ نے اب میرا مذاق اُڑانا شروع کردیا۔ ‘‘

’’تمہاری قسم۔ میں ایسی گستاخی کبھی نہیں کرسکتا۔ ‘‘

’’میری قسم آپ نے کیوں کھائی ہے؟‘‘

’’اس لیے کہ بڑی لذیذ ہے۔ ‘‘

’’یعنی آدمی کو وہی قسمیں کھانی چاہئیں جو مزیدار ہوں۔ ‘‘

’’یقینا‘‘

’’آپ سے میں کبھی جیت نہیں سکتی۔ ‘‘

’’میں تو ہمیشہ ہارتا رہا ہوں۔ ‘‘

’’آپ کب ہارے ہیں۔ ہار تو ہمیشہ میری ہی ہوتی رہی ہے۔ ‘‘

’’اچھا، اب ذرا میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ میری شلوار قمیص نکال دو‘‘

’’الماری میں صرف ایک پائجامہ موجود ہے‘‘

’’بنیان ہو گی‘‘

’’جی نہیں۔ تین میلی پڑی ہیں جو نوکر نے ابھی تک نہیں دھوئیں‘‘

’’ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو تمہیں خود دھولینا چاہئیں‘‘

’’آپ کو کیا معلوم کہ صابن کتنا واہیات ہوتا ہے؟۔ چھالے پڑ جاتے ہیں ہاتھوں میں۔ ‘‘

’’نوکروں کے ہاتھوں میں بھی یقیناً چھالے پڑتے ہوں گے۔ ‘‘

’’آپ ہمیشہ نوکروں کی طرف د اری کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا وہ انسان نہیں؟‘‘

’’خیر چھوڑیئے اس قصّے کو۔ اِدھر آئیے۔ میں آپ کی ٹائی اُتار دوں۔ ‘‘

’’یہ کون سی اتنی بڑی مہم ہے، جو آپ سر کرنا چاہتی ہیں۔ ‘‘

’’میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ یہ بتائیے کہ آپ کو چلنے میں تکلیف کیوں محسوس ہورہی ہے؟‘‘

’’جوتا ذرا تنگ ہے؟‘‘

’’یہ وہی ہے نا جو آپ نے پچھلے مہینے لیا تھا۔ ‘‘

’’ہاں، وہی ہے۔ آج پہلی مرتبہ پہنا ہے۔ ‘‘

’’دیکھ کے نہیں لیا تھا۔ ‘‘

’’دیکھ کر ہی لیا تھا۔ پہنا بھی تھا۔ پر۔ ‘‘

’’چھوٹا کیسے ہو گیا۔ ‘‘

’’جو چیز استعمال نہ کی جائے، سکڑ جاتی ہے۔ ‘‘

’’یہ عجیب منطق ہے۔ ‘‘

’’عورتوں کو اپنے خاوندوں کی ہربات عجیب منطق معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں نے کہا: اِدھر آئیے، آپ کی ٹائی اُتار دوں۔ ‘‘

’’پہلے تو میں یہ تکلیف دہ جوتے اُتارنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’بیٹھ جائیے۔ میں اُتار دیتی ہوں۔ ‘‘

’’آج تم اتنی مہربان کیوں ہو؟۔ پہلے تو۔ ‘‘

’’اب نخرے نہ بگھاریے۔ بیٹھیے کرسی پر۔ ‘‘

’’یہاں سب کرسیاں اس قابل کہاں ہیں کہ اُن پر آدمی بیٹھے۔ ‘‘

’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ جب ان کا بید بالکل ناکارہ ہو جائے گا تو میں سب کی سب ٹھیک کرادوں گی۔ ‘‘

’’یہ تمہاری عجیب منطق تھی جس کے متعلق میں نے کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا تھا کہ مبادا تم ناراض ہو جاؤ۔ ‘‘

’’بات دراصل یہ ہے کہ میں چاہتی تھی کہ جب تک یہ کرسیاں کام دیتی ہیں، ان کی مرمت نہ کرائی جائے۔ کیونکہ انہیں مقررہ وقت پر پھر مرمت طلب ہونا ہے۔ جتنے دن نکل جائیں ٹھیک ہے۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے، تم بھی مرمت طلب ہو۔ ‘‘

’’دیکھیے۔ میں ایسی باتیں پسند نہیں کرتی۔ آپ بڑے بے لگام ہوتے جارہے ہیں۔ ‘‘

’’چلیے۔ میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ ‘‘

’’آپ خاموش ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ خاموش کیوں ہو گئے؟‘‘

’’تم ہی نے تو مجھ سے کہا تھا کہ آپ خاموش ہی اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ آپ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے بیٹھ رہیں۔ ‘‘

’’تم مجھے کچھ کھانے کے لیے دو‘‘

’’میں کیا دُوں۔ آپ باہر سے کھا کر آرہے ہیں۔ ‘‘

’’تم نے کیسے جانا؟‘‘

’’آپ کی پتلون بتا رہی ہے۔ سالن کے داغ لگے ہیں۔ ضرور آپ نے کسی ہوٹل میں اپنے دوست کے ساتھ عیاشی کی ہو گی۔ ‘‘

’’عیاشی تو خیر نہیں کی، لیکن مجبوراً اپنے افسر کے ساتھ ایک دعوت میں شریک ہونا پڑا۔ اور تم جانتی ہو۔ اچھی طرح جانتی ہو کہ میں صرف اپنے گھر کا پکا ہوا کھانا پسند کرتا ہوں۔ وہاں میں نے صرف چند لقمے منہ میں ڈالے اور ہاتھ اٹھا لیا۔ اس لیے کہ کھانا بڑا واہیات تھا۔ اس میں تمہارے ہاتھوں کا نمک نہیں تھا۔ ‘‘

’’لیکن یہ پتلون پر دھبے کیسے پڑے؟‘‘

’’اس لیے کہ سالن واہیات تھا۔ مجھ سے دو مرتبہ چاول نیچے گرگئے۔ ‘‘

’’چاول تو آپ سے ہمیشہ نیچے گرتے رہتے ہیں۔ ‘‘

’’اس کو چھوڑو۔ مجھے یہ بتاؤ کہ فرش پر شربت کِس نے گرایا تھا۔ اور۔ اور۔ یہ گلاس۔ جگ۔ کوئی مہمان آیا تھا؟‘‘

’’ہاں۔ میری ایک سہیلی آئی تھی۔ ‘‘

’’کون؟‘‘

’’آپ اسے نہیں جانتے۔ کوئٹے کی تھی، جو میرے ساتھ پڑھتی تھی۔ اس کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ ؒ‘‘

’’اس سے کیا باتیں ہوئیں؟‘‘

’’میں آپ کو کیوں بتاؤں۔ ویسے وہ اپنے خاوند سے بہت خوش تھی۔ ‘‘

’’ہر عورت کو اپنے خاوند سے خوش ہونا چاہیے۔ اس میں اس کی کیا برتری ہے؟‘‘

’’نہیں۔ وہ۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ایسی ایسی باتیں سُنائیں جو۔ جو مجھے معلوم ہی نہیں تھیں۔ شاید آپ کو بھی معلوم نہ ہوں۔ ‘‘

’’اس گفتگو کو چھوڑیے۔ آئیے میں آپ کے جوتے اتار دوں۔ ‘‘

’’یہ کام میں خود بھی کرسکتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں میں آج خود کروں گی۔ پہلے ٹائی اتارنے دیجیے۔ ‘‘

’’اتار لیجیے۔ ‘‘

’’آپ آج کتنے اچھے لگتے ہیں۔ ‘‘

’’اس کی وجہ کیا ہے؟۔ پہلے تو میں تمہیں کبھی اچھا نہیں لگا تھا۔ آج یک بیک یہ انقلاب کیسے پیدا ہو گیا؟‘‘

’’انقلاب کیسا؟۔ میں شروع ہی سے آپ سے محبت کرتی ہوں۔ میرا سارا دوپٹہ گیلا ہو گیا ہے۔ توبہ، آپ کو اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے؟‘‘

’’چلیے اندر‘‘

’’چلو‘‘

’’یہاں باہر کی بہ نسبت گرمی کس قدر کم ہے؟‘‘

’’ہاں۔ !‘‘

’’اس شُو نے تو آپ کے پاؤں کی انگلیوں پر چنڈیاں ڈال دی ہیں۔ ‘‘

’’ہر تنگ چیز راحت کا باعث ہوتی ہے۔ ‘‘

’’میں بھی آج سے تنگ ہو گئی ہوں۔ ‘‘

’’مجھ سے‘‘

’’نہیں۔ میری سہیلی نے مجھے بتایا تھا کہ اس کا خاوند۔ خیر آپ اس قصے کو چھوڑیے۔ اس نے بڑی تنگ اور چُست چولی پہنی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’میں نے اب دیکھا ہے کہ تم بھی اسی قسم کا بلاؤز پہنے ہو۔ کہاں سے لیا تم نے؟‘‘

’’آج ہی اس کے درزی سے سلوایا ہے۔ ‘‘

’’اور میں جو ساڑھی لایا ہوں۔ ‘‘

’’وہ اس سے میچ نہیں کرتی۔ خیر میں آپ کے ساتھ چلوں گی اور اس د کان میں کوئی اور ساڑھی پسند کرلوں گی۔ ‘‘

’’اُس سہیلی سے تم نے کیا باتیں کیں؟‘‘

’’آپ لیٹ جائیے، ۔ پھر آپ کو پسینہ آرہا ہے۔ میں آپ کو اس کی تمام باتیں سنا دوں گی۔ ‘‘

’’تم اپنی سہیلی سے ایسی باتیں ہر روز سنا کرو۔ تاکہ ہماری زندگی خوشگوار رہے۔ اور تم میرے پسینے کو اپنے دوپٹے سے اسی طرح پونچھتی رہو۔ ‘‘

’’آپ کا پسینہ تو اب میرا لہو بن گیا ہے۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از ڈاکٹر نور ظہیر