مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
مجھےتو جرم بتانا بھی تھا چھپانا بھی
اور اب کی بار تو ایسے کمان کھینچی ہے
کہ تِیر لے اُڑا شانہ بھی اور نشانہ بھی
جو سانپ غیر ضروری تھے مار ڈالے ہیں
اب آستیں بھی سلامت ہے آستانہ بھی
یہ مَے کشوں کا توازن بھی کیا توازن ہے
کھڑے بھی رہنا سہولت سے لڑکھڑانا بھی
مرا نہيں ‘ مرے ایمان کا تقاضا تھا
کہ مجھ سے عشق کرے کوئی کافرانہ بھی
تم اِس لئے بھی مجھے اجنبی نہيں لگتے
کہ تم سے ایک تعلق تھا غائبانہ بھی
ہمارے شہر کے لوگوں کو خوب آتا ہے
کسی کو سَر پہ بٹھانا بھی اور گِرانا بھی
یونہی تو میر کے دَر سے نہيں اُٹھائے گئے
ہمارے پاس غزل بھی تھی اور فسانہ بھی
عمران عامی