اردو غزلیاتشعر و شاعریعمران عامی

مرے خلاف عدالت بھی

عمران عامی کی ایک اردو غزل

مرے خلاف عدالت بھی تھی زمانہ بھی
مجھےتو جرم بتانا بھی تھا چھپانا بھی

اور اب کی بار تو ایسے کمان کھینچی ہے
کہ تِیر لے اُڑا شانہ بھی اور نشانہ بھی

جو سانپ غیر ضروری تھے مار ڈالے ہیں
اب آستیں بھی سلامت ہے آستانہ بھی

یہ مَے کشوں کا توازن بھی کیا توازن ہے
کھڑے بھی رہنا سہولت سے لڑکھڑانا بھی

مرا نہيں ‘ مرے ایمان کا تقاضا تھا
کہ مجھ سے عشق کرے کوئی کافرانہ بھی

تم اِس لئے بھی مجھے اجنبی نہيں لگتے
کہ تم سے ایک تعلق تھا غائبانہ بھی

ہمارے شہر کے لوگوں کو خوب آتا ہے
کسی کو سَر پہ بٹھانا بھی اور گِرانا بھی

یونہی تو میر کے دَر سے نہيں اُٹھائے گئے
ہمارے پاس غزل بھی تھی اور فسانہ بھی

 

عمران عامی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button