- Advertisement -

میرے بھائی کے بچے

روبینہ فیصل کا ایک اردو کالم

میرے بھائی کے بچے
انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے،پڑھتا لکھتا ہے، ہنستا کھیلتا ہے،اس زمین سے جب جدا ہو کر جیتا ہے تو بس تمام عمر ادھورا ہی رہتا ہے۔سب مہاجروں کی ایک سی کہانی اور ایک سی کبھی نہ ختم ہونے والی کسک ہوتی ہے۔ پاکستان جا ؤ تو ایک فقرہ بہت سننے کو ملتا ہے، آپ لوگوں کا کیا ہے، آپ لوگ تو وہاں عیش کر رہے ہیں۔ اس عیش کے لفظ میں ایک طنز ہو تا ہے، ایک چھپی ہو ئی نفرت۔ طنز اس لئے کے چلے گئے ہو تو اب کیا ہماری اور ملک کی بد حالی کا مزہ لینے آتے ہو؟ہمارے آگے ڈالرز چینج کروا کروا کر جب خریداری کرتے ہو تو کیا ہمیں نیچا دکھانے آتے ہو؟ ایک جیسے ملک میں پیدا ہونے کے باوجود ایک جیسے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، ایک جیسی گندم کھانے اور ایک جیسی دھوپ سینکنے کے بعد تم ہم سے افضل کیوں ہو گئے؟۔۔ ہو گئے ہو تو جاؤ وہیں رہو، جہاں کے ہو۔۔ مگر اس سب ڈھکی چھپی شکایت اور نفرت کے باوجود وہ ہم مہاجروں کو مکمل طور پر دھتکار بھی نہیں سکتے۔ہماری وجہ سے ان کے بازاروں کی رونقیں قائم ہیں۔۔۔یہاں کینڈا میں خریداری،حسب ِ ضرورت کروں یا بلا ضرورت، کاؤنٹر پر کھڑے سیلز مین یا ادھر اُدھر پھرتے ہیلپینگ بوائز کی ذات پر رتی برابر اثر نہیں ہو تا مگر پاکستان میں ایسا کچھ نہیں، وہاں کوئی بھی دکان ہو، بک شاپ، بیکری ہو یا کپڑوں کی۔۔ خریداری کی مقدار کے ساتھ ساتھ، دکان میں موجود ہر شخص کا انداز بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جانچ لیتے ہیں کہ یہ ایکدم سے اتنی ساری چیزیں لینے والا مقامی نہیں اور بھاری آسامی ہے اور ان سوغاتوں کی محبت میں سات سمندر پار کچھا چلا آیا ہے۔۔ وہ اس آسامی کی قدر کرتے ہیں کیونکہ اس کی قوت ِ خرید بہر حال ایک عام پاکستانی سے زیادہ ہی ہو تی ہے۔ اس قوت ِ خرید کی وجہ سے وہ دل میں دبی اس بھگوڑے کے لئے نفرت کو کمال ہشیاری سے چھپا تے ہیں اور اس کو خوش کرنے کے جتن میں لگ جا تے ہیں۔
بدلنے سے یاد آیا،جس جگہ کو آپ چھوڑ آتے ہیں، وہ جگہیں بھی بدل جاتی ہیں، ان کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے انسان بھی بدل جاتے ہیں۔۔ مجھے ایف سی کالج جانے کا اتفاق ہوا۔میں وہی تھی بالکل ویسی کی ویسی، عمر گزری ہو تو گزری ہو، دل وہیں کا وہیں رکا ہوا تھا۔ جس صبح وہاں جانا تھا، رات بھر سوچتی رہی تھی کہ کلاس روم جا کر دیکھوں گی، وہ بنچ جہاں میں بیٹھا کرتی تھی اور جہاں میرے بیٹھنے سے پہلے سر خ رنگ سے کوئی کچھ لکھ جایا کرتا تھا، جہاں اس بات پر میرا غصہ اور پھرسہیلیوں کے ساتھ قہقے سب وہیں کہیں دبے ہونگے، کالج کے ان کشادہ خوبصورت سرسبز میدانوں میں تھوڑی دیر کو چہل قدمی کروں گی، جہاں ہم نے نیا نیا یو نیفارم سٹارٹ ہوا تھا، جس کے اوپر ایک عدد کالا گاؤن بھی پہننا ہوتا تھا، جو ہمیں اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ لگا کرتا تھا، اکثر اتار کر کلاس میں ہی رکھ آیا کرتی تھیں اور جب کبھی پر نسپل راؤنڈ لگاتے ادھر کو نکل آیا کرتے تھے تو ہم ان کو دیکھ کر مخالف سمت میں بھاگ کھڑی ہو تی تھیں۔اس پارکنگ لاٹ کی موٹی سی زنجیر کو دیکھوں گی جس کے پیچھے میرے بھائی کو مجھے اتارنا ہوتا تھا، اور جس کے آگے اسی کالج میں پڑھنے والے شریف خاندان کے سپوتوں کی گاڑیاں بغیر کسی رکاوٹ کے گذر جایا کرتی تھیں، اور میں خود کو عام انسان ہونے پر کوستی کلاس میں ہمیشہ ایک آدھ منٹ لیٹ داخل ہو تی تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ اشفاق سرور صاحب انتہائی منظم ہو نے کی وجہ سے مجھے کلاس سے باہر بٹھا دیا کرتے تھے۔۔۔اس وائٹ بورڈ کو دیکھنا چاہتی تھی، جہاں جس کو موقع ملتا خالی کلاس دیکھ کر اپنے اپنے دل کی بھڑاس، یا کسی کا رکھا نام لکھ دیا کرتا تھا۔
اس لائبیریری کو جو ہمارے کلاس روم کے بالکل سامنے ہوا کرتی تھی، اور اس چرچ کو جہاں ہم لائبریری سے زیادہ جایا کرتی تھیں۔میں اس کینٹین میں جانا چاہتی تھی، جہاں بیٹھ کر ہم سموسوں اور بوتلوں کے لئے پیسے گنا کرتی تھیں۔۔ ان بابا جی سے ملنا چاہتی تھی جو ہمارے قہقے سن کر کہا کرتے تھے” کڑیو! اینا نئیں ہسی دا بعد وچوں رونا ای پیندا اے۔”۔ اور ہم اس بات پر اور زور سے ہنس دیا کرتی تھیں۔۔ ۔۔۔۔ایف سی کالج کی بس کے لالہ جی، جو سٹاپ آنے پر میرے بس سے اترنے کے بعد میرے کلاس فیلوز کو کہا کرتے “ایسے کھرے لوگ اب پیدا نہیں ہوتے اس کی قدر کیا کرو۔۔ یہ آگے رُلے گی بھی بڑا۔۔۔:میں لالہ جی سے بھی مل کر پوچھنا چاہتی تھی ان کی چھٹی حس اتنی درست کیوں تھی؟
مگر وہاں مجھے کچھ نہ ملا نہ کینٹین والے بابا جی، نہ وہ کینٹین،نہ لالہ جی اور نہ ایف سی کالج کی وہ نیلی بسیں۔نہ لائبر یری نظر آئی اور نہ چرچ، نہ اپنی کلاس ڈھونڈ سکی اور نہ اس میں بچھے ہمارے بنچ، نہ وہ وائٹ بورڈز نہ وہ درخت جن پر لال روشنائی سے چیکو لکھا ہوتا تھا۔اس کی بجائے ایف سی کالج، جو کسی بھی گیٹ سے عاری ہوا کرتا تھا، وہاں بھاری بھر کم گیٹ نظر آئے، سیکورٹی کا ایک انتہائی سخت نظام نظر آیا، سٹوڈنٹس اور وزیٹر لمبی لائینوں میں لگے سیکورٹی چیک اپ کروا رہے تھے۔مجھ سے اور ساتھ گئی میری بھانجی ثنا سے بھی شناختی کارڈ رکھوا لیا گیااور گلے میں لٹکانے کے لئے ایک شناخت ڈال دی گئی کہ ہم یہاں وزیٹر ہیں۔
میں بدلے ہو ئے کالج کی در دیوار سے ہو کر بھائی کے گھر پہنچی تو اس کے بچے بھاگ کر میرے سینے سے آلگے۔ پاکستان میں قیام کے دوران جب بھی سارا دن کی مصروفیت کے بعد بھائی کے گھر واپس آتی تو اس کے چار چوزوں جیسے بچے میرے ساتھ ایسے والہانہ پن سے آلگتے کہ دن بھر کی ساری تھکان دور ہو جاتی۔ نہیں بدلا تو وہاں، اُس گھر میں میرا بچپن نہیں بدلا۔ یہ بچے، میرے بھائی کے بچے، آج بھی ہم بہن بھائیوں کا بچپن تھامے ہوئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں نہ صرف کینڈا بلکہ پاکستان کے بچوں کی بھی معصومیت کہیں کھو گئی ہے لیکن وہ بچے وہی معصومیت، وہی سادگی، وہی محبت لئے کھڑے ہیں جو صرف ہمارے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ جب ہم اپنی نانی اماں اور خالاؤں کو دیکھ کر اسی طرح والہانہ پن سے انہیں چمٹ جایا کرتے تھے۔ ان کے آنے کے بعد ان کے گرد گھومتے رہتے اور ان کے جانے کے بعد ان کے خیالوں میں کھوئے رہتے تھے۔۔ آج بھی بالکل ویسے کے ویسے میرے بھائی کے بچے ہیں۔ وہاں کچھ نہیں بدلا۔ رات رات بھر ان کے ساتھ لڈو کھیلتے میں نہ جانے کتنی مرتبہ اپنا بچپن جی آئی ہوں۔اذان (میرا نو سال کا بھتیجا) جب ہارنے کے خوف سے رونے لگتا ہے تو میں اس کی ست رنگی آنکھوں میں اپنا بھائی (ان کا باپ) دیکھتی ہوں۔۔ بالکل ایسے ہی وہ کبھی ہار نہیں مانا کرتا تھا، کبھی لڈو پھاڑ دیتا تھا، اور کبھی ہم سے مار کٹائی شروع کر دیا کرتا تھا۔۔۔اذان اپنے باپ کا بچپن جی کر مجھے میرے کھلنڈرے بھائی سے ملواتا ہے۔۔ ایک دوسرے کو ڈراؤنی کہانیاں سنا کر ساری رات ڈرتے رہنا، یہ سب تو بس میرے بچپن میں تھا یہ میرے بھائی کے گھر اس کے بچوں کے اندر یہ سب کیسے زندہ ہے۔ ورنہ تو کینڈا کے بچے یا آجکل کے بچے کہیں بھی ہوں،کسی ایسی ویسی چیز سے نہیں ڈرتے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔۔ اور اگر کوئی خوفزدہ کر دینے والی حقیقت سامنے آکھڑی ہو تی ہے تو اس کا مقابلہ بڑی دانشمندی سے کرتے ہیں۔۔ وہ معصوم سا چوزوں جیسا خوف، جب ہم رات کے وقت، جب ایسی ہی کسی کہانی کو سن کر خوفزدہ ہو تے تھے تو اپنی امی کی قمیض کا دامن تھامے سارے گھر میں ان کے پیچھے پیچھے پھرا کرتے تھے۔۔ویسا ہی خوف، خوف سے کسی بڑے سے چمٹے رہنا، کچن میں جانا تو اکھٹے ہو کر جانا، صحن میں کسی کے چلنے کی آواز کا شبہ ہونا تو رات بھر سہمے رہنا۔۔ چھپکلی کو دیکھ کر اس پر کسی بھوت ہونے کا شک کرنا۔۔ ساری ساری رات اس خوف سے جاگتے رہنا کہ سو گئے تو کہیں مر نہ جائیں۔۔ کبھی ڈریکولا، کبھی سر کٹا۔۔ کیا کیا کچھ نہ تھا ہمارے بچپن میں ڈرانے کو۔۔۔
وہ سارا بچپن اپنے بچوں میں بالکل اُ سی طرح سنبھالے رکھنے پر میرا بھائی مبارکباد کا مستحق بھی ہے اور میرا دل کرتا ہے لاہور کی سب مہمان نوازیاں، سب محبتیں، سب شیلڈز، سب پز یرائیاں ایک طرف جو مجھے اس دفعہ ملیں۔۔ ان بچوں کی معصومیت، سادگی اور محبت کی صورت میں میرا بچپن مجھے دکھانے پر بھائی کو کہوں۔۔” شکریہ “۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از معافیہ شیخ