محسوس نہ ہوگا کبھی آزار مجھے بھی
جب یار سمجھ لے گا مرا یار مجھے بھی
رکھتا ہوں جنوں کے سبھی آثار چھپا کر
کہہ دے نہ کہیں خلق اداکار مجھے بھی
کس کس کو ترے حُسن کی تعریف سناتا
ہر شخص یہ کہتا تھا کہ سرکار ! مجھے بھی
میں ہجر میں دیوار سے اِک بار لگا تھا
دیوار نے کر ڈالا ہے دیوار مجھے بھی
اب بھاگ نہیں چھوڑ کے میدان کو دشمن
کس نے یہ کہا تھا تجھے للکار مجھے بھی
بستی سے چلے جانے کے نقصان بتا کر
کرتے تھے کئی پیڑ خبردار مجھے بھی
اِک دل ہے جسے کوئی بھی اپنا نہیں لگتا
واقف تو ملے شہر میں دو چار مجھے بھی
تُو عشق سے درویش بنا دے تو الگ بات
ورنہ تو ہے دنیا ابھی درکار مجھے بھی
میں ضبط کے معیار سے آگے نہیں آیا
پھر سے سگِ دنیا ذرا دھتکار مجھے بھی
مانا کہ بڑے شخص ہو ،مصروف ہو لیکن !
دو وقت ملاقات کا اِ س بار مجھے بھی
ازور شیرازی