- Advertisement -

کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم

میر تقی میر کی ایک غزل

کب تک رہیں گے پہلو لگائے زمیں سے ہم
یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم

تلواریں کتنی کھائی ہیں سجدے میں اس طرح
فریادی ہوں گے مل کے لہو کو جبیں سے ہم

فتراک تک یہ سر جو نہ پہنچا تو یا نصیب
مدت لگے رہے ترے دامان زیں سے ہم

ہوتا ہے شوق وصل کا انکار سے زیاد
کب تجھ سے دل اٹھاتے ہیں تیری نہیں سے ہم

چھاجے جو پیش دستی کرے نور ماہ پر
دیکھی عجب سفیدی تری آستیں سے ہم

یہ شوق صید ہونے کا دیکھو کہ آپ کو
دکھلایا صیدگہ میں یسار و یمیں سے ہم

تکلیف درد دل کی نہ کر تنگ ہوں گے لوگ
یہ بات روز کہتے رہے ہم نشیں سے ہم

اڑتی ہے خاک شہر کی گلیوں میں اب جہاں
سونا لیا ہے گودوں میں بھر کر وہیں سے ہم

آوارہ گردی اپنی کھنچی میر طول کو
اب چاہیں گے دعا کسو عزلت نشیں سے ہم

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل