- Advertisement -

محروم چئیو کھبی نہیں مرتی

اردو کالم از روبینہ فیصل

میں نے کتا ب کی آخری لائن ختم کی تو،گھر کی تنہائی میں ، میرے ساتھ وہ نو سال کی بچی آ کھڑی ہوئی، جو جاپان کے ایک چھوٹے سے قصبےYoroido میں ، ٹوٹے پھوٹے گھر میں پیدا ہو ئی تھی ۔ جس کو آگے چل کر گیشا بننا تھا ، لیکن ابھی وہ بچی میرے سامنے کھڑی تھی ،اس کی سرمئی آنکھوں میں آنسو تھے ۔جو شائد اس نے کھبی نہیں بہائے تھے ،مگر آج وہ میرے گلے لگ کے خوب رو رہی تھی ، کیونکہ میں بھی اس کے گلے لگے رو رہی تھی ۔ ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ تھا ،بر اعظموں کی مسافت تھی ،زبان کا فرق تھا ، ثقافت ،رنگ و روپ سب اپنے اپنے تھے مگرآنسو تھے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔ وہ گیشا، نیتا سیوری ، بیسویں صدی کے آغاز میں پیدا ہو ئی تھی ۔ 1996 ,97نیویارک میں waldrof towerکے 32فلور پرمر بھی چکی ہے ۔۔مگر آج وہ میرے پاس آگئی ۔ میںmemoirs of a Geisha کئی سال پہلے بھی پڑھ چکی تھی ،جب ہم ہجرت کرتے ہیں تو ،سامان کے ساتھ ساتھ اپناکھلنڈرا پن اور لاپرواہی والا مزاج بھی وہیں کی مٹی میں دفن کر آتے ہیں۔ اس لئے آج کینڈا میں اسی کتاب کا اثر ہی کچھ اور تھا، شائد اسی وقت میری خالہ کی موت بھی ہو رہی تھی ،شائد وقت کا وہ پل مجھے خالہ کی اس گود میں گھسیٹ کر لے جا رہا تھا ، جس میں وہ زبردستی میرے گھنے اور الجھے بالوں میں کنگھی کرتی تھی ، اور میں سر ایک جگہ ٹکا نہ پاتی تو ان سے ڈانٹ کھاتی تھی ، اپنے غصے کی وجہ سے وہ خالہ مجھے اچھی نہیں لگتی تھی مگر اب لگتا ہے کہ وہ غصہ ،اور حالات کی وجہ سے بے بسی، اپنائیت کا چہرہ تھا ۔۔شائد اس اپنے پن کی فیصل آباد کے ہسپتال میں موت ہو رہی تھی یا وہ ننھی گیشا بہت صدیاں گذرنے کے بعد بھی ایک زندہ حقیقت کی طرح میرے سامنے بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھی ، پتہ نہیں کیا تھا ،آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔۔۔
قدرت کے نظام کو سمجھنے نکلیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ صدیوں بعدایک گیشا کے آنسو مجھے کیسے نظر آنے لگے؟کہنے کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان سے گیشا کلچر ختم ہو تا گیا ،مگرحقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دنیا کتنی بھی ترقی کر جائے ، مرد کو لبھانے والی عورت کا تصور تا قیامت قائم رہے گا ۔ گیشا کا مطلب ہے entertainer،اس NITTA SAYURIکی کہانی پڑھئے ، سچی کہانی ہے ۔ اور جب سچا مصنف لوگوں کے سامنے آئینہ رکھ دیتا ہے تو سب ایسے عیاش نظام کو نہیں ، اسے” بیمار ذہن “کہنے لگ جاتے ہیں۔
یہ کہانی ، اس گیشا کی سچی کہانی ہے ، جس کے اندر مرتے دم تک بھی یہ رکھ رکھاؤ قائم تھا کہ رائٹر کو کہہ گئی کہ یہ یاداشتیں میرے اور کچھ اہم شخصیات جن کے بارے لکھا گیا ہے ، کے مرنے کے بعدمنظر پر لانا۔۔تاکہ کو ئی شرمندہ نہ ہو ۔ جس بچی کو نو سال کی عمر میں باپ نے بیچ دیا ہو ، اس بچی کا دل اتنا بڑرہاکہ بوڑھی ہو کر بھی خریداروں کا پردہ رکھنا چاہتی تھی۔
نیتا،جس کا اصلی نام چئیو تھا ، ایک غریب مچھیرے کے گھر میں حسین آنکھیں لے کرپیدا ہوئی تھی ، اس کی ماں بیمار تھی ، ڈاکٹر نے جواب دے دیا اور باپ ،غریب بوڑھا ، پھر مسٹر ٹا نکا ہے جس نے چئیو کو گلیوں میں کھیلتے دیکھا تھا ، چئیو لکھتی ہے:
“مسٹر ٹانکا نہ ہو تا تو میں وہ نہ ہو تی جو ہوں ، پتہ نہیں مسٹر ٹانکا کا زندگی میں آنا اچھی بات تھی یا بری ، مگر یہ طے ہے کہ وہ نہ ہو تا تو میں گیشا نہ ہو تی” ۔۔
مسٹر ٹانکا نے ہمدردی کی آڑ میں،ان کے باپ کو ، نیتا اور اس کی بہن سیتو کو بیچنے کا راستہ بتا یا ۔اوربچیاں یہ سمجھتی رہیں کہ کوئی امیر خاتون یا گھرانہ ان کی کفالت کر ے گا۔ مگر جب ان کا میڈیکل چیک ہوا تو وہ کچھ سمجھ نہ پائیں ،سب منزلیں طے ہوتی گئیں ، چئیو ، نیتا بن گئی مگر اپنے گھر کے لئے تڑپتی رہی ۔ماں کب مری کیسے مری ، اسے بہت بعد میں خبر ہو ئی ۔وہ بچی گھر اور پیار ڈھونڈتی رہی۔
یہ کہانی ، سالوں پہلے ایک جاپان کی گیشا کی نہیں ہے ۔ یہ کہانی آج بھی شکل اور نام بدل کر ہمارے سامنے کھڑی ہے ۔ یہ عالمگیر درد ہے جس کی نہ وقت کی سرحد ہے اور نہ کسی ملک کی ۔ ۔ یہ در د سب مظلوم بچیوں کا ہے ۔کہنے کو گیشا،طوائف نہیں ہو تی ، مگر مردوں کو لبھانے کے لئے اسے موسیقی ، رقص ، خوبصورت باتوں ، چائے پلانے اور ڈرنک پلانے میں تاک ہو نا پڑتا ہے ۔ اس زمانے کے جاپان میں گیشا ؤں کا ایک علاقہ ہوتا تھا، GION،وہیں ان کو کفیل مل جاتے تھے ۔جس گیشا کو کفیل ،جسے دانا کہا جا تا تھا ،مل جاتا تھا ، مطلب اس کے سب خرچے اٹھانے والا ، وہ خوش قسمت اور کامیاب قرار پاتی تھی ۔
نیتا کی پندرہ سال کی عمر میں کنوار پن کی نیلامی ،جس میں رال ٹپکاتے چالیس اور پچاس سال کے بڈھے حصہ لیتے تھے ، کسی کی توند نکلی ہوئی ، کسی کا بازہ ٹوٹا ہوا ، کسی کے چہرے پر زخم کا نشان ، تمام ادوار کے ایسے گھناؤنے چہروں سے پردہ اٹھانے والا منظر ہے۔ رایٹرنے خوب لکھا ہے کیونکہ اس نے گیشا سے سچ لکھنے کا وعدہ کیا ہے ۔
بیما وہ معاشرے ہیں جہاں بچیوں کوآج بھی کھبی داسی بنا کر مندر میں چھوڑ دیا جا تا ہے اور کھبی باپ کی عمر کے مردوں کے آگے بیچ دیا جاتا ہے۔اورکیا اب یوں نہیں ہو نے لگا کہ ہر فیلڈ میں ہی عورتوں کو ترقی کے لئے ایسے دانادرکار ہیں اور جو عورتیں خود کچھ کرنا چاہیں ، وہ ساری عمر دیواروں سے ٹکریں ہی مارتی رہ جاتی ہیں ،اور جنہیں دانا مل جاتے ہیں وہ پار لگ جاتی ہیں؟ اور ان کا کام صرف اپنے کفیل کو خوش رکھنا ہے ۔اور جس دن وہ خوش رکھنے کے قابل نہ رہ جائے ، اس دن وہ کفالت بھی ختم ۔ سالوں پہلے پیدا ہو نے والی جاپان کی گیشا آج بھی بااثر کفیل کی متلاشی ہے ۔
اس ناول میں ،جب آپ جسم بیچنے اور مردوں کو لبھانے کے لئے سفید میک اپ کے پیچھے چھپی گیشا کے دل کی بات، جو کہ خالص اور چھوٹی سی تھی ، پڑھیں گے تو لرز جائیں گے ۔ دولت میں کھیلنے اور مردوں کا کھلونا بننے کے بعد بھی بچپن کی ایک محبت اور مہربانی کی، ایک مرد کی تصویر (جسے ناول میں “چئیرمین” لکھا گیا ہے) اسکے دل پر بچپن میں ہی نقش ہو گئی تھی اور بس وہی تمام عمر ڈھونڈتی رہی ۔
ایکدن ،اس اجنبی ماحول سے گھبرا کر وہ دس سالہ بچی بھاگنے کی کوشش میں پکڑی جاتی ہے اور سزا پانے کے بعد سمندرکنارے کھڑی رو ہی ہوتی ہے جب وہ چئیرمین اپنے دوستوں کے ساتھ گذرتا ہے ، اسے رک کے تسلی اور آنسوپونچھنے کو اپنا رومال دیتا ہے ۔ چئیرمین کی سچائی اور رومال وہ تمام عمر سنبھال کر رکھتی ہے ۔
گیشا بننے کے بعد جب بھی اسے دیکھتی ،قریب ہو نے کی کوشش کر تی ہے اور آخر میں وہ ساری دنیا چھوڑ کرصرف ا س کی ہو جاتی ہے ۔۔
کہانی کا سچ یہ ہے کہ میک اپ اوربھاری لباس کے پیچھے چھپی کامیاب اور مشہور گیشا ، نیتا ، ہمیشہ چھوٹی سی چئیو ہی رہی ۔ جسے ، اس کی ماں سے ، موت سے پہلے ہی جدا کر دیا گیا تھا ، جو سا را بچپن، تھامنے کے لئے ،اپنی بڑی بہن کا ہاتھ ڈھونڈتی رہی ، جوپناہ کے لئے باپ کی گود نہ حاصل کر سکی ، اور وہ زندگی میں آنے والے پہلے مرد کی پہلی سچائی ، جس سے اس نے چئیو کے آنسو صاف کئے تھے ، اسے ہی ڈھونڈتی رہی ۔ سارا بچپن ، اور جوانی ، وہ محبت کے اس رومال کو ہی سینے سے لگائے بیٹھی رہی۔
جاپان کی گیشا جگہ جگہ ہیں ۔ ان کے دکھ پر حساس دل روتے ہیں ، مگر ان گئیشاؤں کی معصومیت کا یہ عالم ہو تا ہے کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہو تا کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے۔۔ نیتا اگر چئیرمین کے ساتھ نیویارک نہ آتی تو شائد وہ بھی اسی چار دیواری میں کچھ کہے بغیر ہی مر جاتی ۔۔اور آج آرتھر گولڈن کا یہ ناول منظرِ عام پر آکر ان معصوم بچیوں کی آنکھوں کے آنسو نہ دکھاتا ،جو بچپن کی محرومی کے باعث جتنی بھی بڑی ہو جائیں بچیاں ہی رہتی ہیں ۔۔۔ چئیو کھبی بھی نیتا نہیں بن پاتی ۔

روبینہ فیصل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسرت موہانی