اردو غزلیاتشعر و شاعریقمر رضا شہزاد

لہو میں ڈوبا ہوا پیرہن چمکتا ہے

قمر رضا شہزاد کی اردو غزل

لہو میں ڈوبا ہوا پیرہن چمکتا ہے

سلگتی ریت پر اک گل بدن چمکتا ہے

ستارے بجھتے چلے جا رہے ہیں خیموں میں

بس اک چراغ سر انجمن چمکتا ہے

ضعیف چن تو رہا ہے جوان لاشوں کو

مگر نگاہ میں اک بانکپن چمکتا ہے

یہ کیسے پھول جھڑے شیر خار ہونٹوں سے

کہ جن کے نور سے سارا چمن چمکتا ہے

یہ کون ماہ منور اسیر ہے شہزادؔ

یہ کس کا حلقۂ طوق و رسن چمکتا ہے

قمر رضا شہزاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button