لہو میں ڈوبا ہوا پیرہن چمکتا ہے
سلگتی ریت پر اک گل بدن چمکتا ہے
ستارے بجھتے چلے جا رہے ہیں خیموں میں
بس اک چراغ سر انجمن چمکتا ہے
ضعیف چن تو رہا ہے جوان لاشوں کو
مگر نگاہ میں اک بانکپن چمکتا ہے
یہ کیسے پھول جھڑے شیر خار ہونٹوں سے
کہ جن کے نور سے سارا چمن چمکتا ہے
یہ کون ماہ منور اسیر ہے شہزادؔ
یہ کس کا حلقۂ طوق و رسن چمکتا ہے
قمر رضا شہزاد