جو شجر دیتا تھا سایہ وہ شجر کٹنے لگا
آج دنیا سے مرے دل کا نگر کٹنے لگا
ہے جدا ئی کا یہ موسم کس قدر مجھ پہ گراں
اب مجھے محسوس ہوتا ہے جگر کٹنے لگا
پہلے ملتا تھا سکوں اْس سایہئ دیوار سے
اوراب دیوار کے سائے سے سر کٹنے لگا
میری آنکھوں میں یہ دنیا ہوگئی معدوم کیا
رفتہ رفتہ اْن کی یادوں کا اثر کٹنے لگا
دوستو! اس شہر میں جیسے کوئی اپنا نہیں
کیا مصیبت ہے کہ مجھ سے ہر بشر کٹنے لگا
اُڑ کے اب کوئی پرندہ شاخ پر آتا نہیں
جیسے ہر شاخِ شجر سے اُس کا پَر کٹنے لگا
چاند بھی شیدائی ہے اے سوزؔ میرے چاند کا
یہ خوشی ہے کہ محبت کا سفر کٹنے لگا
محمد علی سوزؔ