خدا کو اک طرف خدا کی دلکشی کو اک طرف
ٹٹولتی رہی میں اپنی بے بسی کو اک طرف
بس ایک ڈائری سنوارنے میں رات کٹ گئی
کبھی خوشی کو اک طرف کبھی غمی کو اک طرف
انہیں بتائیے کہ شاعری عطا ہے ، روگ نئیں
جو لوگ لے گئے ہیں میری شاعری کو اک طرف
مجھے ڈراۓ جا رہی تھی موت موت کی صدا
پٹخ دیا اٹھا کے میں نے زندگی کو اک طرف
یہ چاروں اور دیکھتی ہے کھوجتی ہے چار سو
لگائیے جی دھیان میں اس آگہی کو اک طرف
فرح گوندل