سوچتے رہتے ہیں ہر دم جو ضرر کی باتیں
یا خُدا اُن کو سکھا علم و ہنر کی باتیں
وہ سمجھ ہی نہ سکے میر ی نظر کی باتیں
کھول دیں میں نے تو سب قلب و جگر کی باتیں
اب بچھڑنا تو مقدّر ہے، مگر کچھ لمحے
دل سے تُو سُن لے مرے دیدۂ تر کی باتیں
آزما اور مرے ضبط کو تُو اے دنیا
گھر میں رہنا بھی ہُوا، راہ گزر کی باتیں
میری آہوں کا تو احساس نہیں ہے تم کو
کرتے ہو عشق کی، قربت کی، قدر کی باتیں
دلِ خوش فہم کو کیا اور بھی ہیں اُمّیدیں
شہرِ آشوب میں کرتا ہے جو گھر کی باتیں
حسرتیں دل کی مٹانے کے لئے اے ہم دم
ہم تو کرتے ہیں اِدھر اور اُدھر کی باتیں
ایسا کم بخت ہے دل، باز جو آتا ہی نہیں
ہجر کی رات ہے اور چاند نگر کی باتیں
ناہید ورک