ٹینک شہر کی سڑکوں پر گولےبرساتےآگےبڑھ ر ہےتھے،
لوگ بےتحاشہ خود کو ٹینک کےگولوں سےبچانےکےلئےاِدھر ، اُدھر بھاگ رہےتھے۔ گولےکبھی کسی بلڈنگ کی دیوار سےٹکرا کر پھٹتےاور آگ کا ایک شعلہ سا بلند ہوتا‘ اِس کےبعد پھر دُھواں ۔ دھیرےدھیرےجب دُھواں صاف ہوتا تو بلڈنگ میں پڑےشگاف صاف دِکھائی دیتے۔ کبھی کوئی خون میں لت پت زخمی یا پھر کوئی لاش
کبھی ٹینک کےگولےسڑک پر گر کر سڑک پر گڑھےپیدا کردیتےاور کبھی لوگوں کو زخمی کردیتے، کبھی ٹینک مکانوں کی دیواروں کو ڈھاتے، مکینوں کی پرواہ کئےبِنا مکانوں کو ملبےکا ڈھیر بناتےآگےبڑھ جاتے۔
کبھی آسمان پر کوئی ہوائی جہاز نمودار ہوتا اور اس بستی پر بم برساتا آگےبڑھ جاتا ۔ بم بستی میں گر تےدھماکےاور شعلےبلند ہوتے، دُھوئیں کا ایک بادل پوری بستی کو اپنی لپیٹ میں لےلیتا ۔ جب دُھواں چھٹتا تو ملبےکےڈھیر میں تبدیل مکانات دِکھائی دیتےاور ان ملبےکےڈھیروں پر ماتم کرتےمکین یا پھر کراہتےزخمی ۔
کبھی آسمان میں ہیلی کاپٹر نمودار ہوتےاور ان میں سوار سپاہی ہیلی کاپٹر سےنیچےسڑکوں اور گلیوں میں آتےجاتےلوگوں پر اندھا دُھند گولیاں برساتے۔ گولیوں کی آوازیں سُن کر لوگ اِدھر اُدھر بھاگتے، کچھ گولیاں کھا کر گرتےاور زمین پر گر کر تڑپنےلگتےتو کچھ گر کر ٹھنڈےہوجاتے۔
بندوق بردار سپاہی اندھا دُھند گولیاں برساتےآگےبڑھتےبھیڑ کبھی خود کو گولیوں سےبچاتی تو کبھی گولیاں برسانےوالوں پر پتھراو
کرتی ۔
گولیوں کا جواب پتھروں سےدیا جاتا ۔
ایک طرف لاشوں کےڈھیر لگتےتو دُوسری طرف کبھی کوئی وَردی والا معمولی طور پر زخمی ہوتا ۔
” یہ ہےمقبوضہ فلسطین ۔ آئےدِن ہم یہاں سےآپ کےلئےاِسی طرح کی خبریں لاتےہیں “
ٹی وی کےاسکرین پر ایک چہرہ نمودار ہوا اور پھر اسکرین پرمنظرتبدیل ہوگیا۔
دو فلک بوس عمارتیں۔آسمان کی بلندیوں کوچھوتی ہُوئی سینہ تان کر کھڑی اِن اَمارت ، شان و شوکت ، عظمت اور قوت کا مظہر ۔
اچانک ایک ہوائی جہاز اُڑتا ہُوا آیا اور اِس سےٹکرا گیا ۔
ایک پل میں ہی وہ عمارت شعلوں میں گھر گئی ۔ اب اِس عمارت سےصرف شعلےاور دُھواں اُٹھ رہا تھا ۔
اُسی وقت دُوسرا ہوائی جہاز آکر دُوسری عمارت سےٹکرایا اور وہ بھی شعلوں میں گھر گئی ۔
شعلوں میں گھری اس عمارتوں کی ایک ایک منزل ڈھنےلگی ، چاروں طرف صرف شعلےاور دُھواں تھا اور ان کےدرمیان ڈھتی اپنےوجود کھوتی دو بلند شگاف عمارتیں
” داڑھی والا “
” پکڑو ! اِسےبچ کر جانےنہ پائے۔ “
” مارو اِسےمارو ! یہ دہشت گرد ہے۔ اِس ساری تباہی کا ذمہ دار ہے۔ “
ایک بھیڑ اس کےپیچھےلگی ہوئی تھی اور وہ جان بچانےکےلئےاپنےجسم کی ساری قوت یکجا کرکےبھاگ رہا تھا ۔
لیکن اپنےآپ کو کب تک اس بھیڑ سےبچا پاتا لوگ بھوکےکتوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے۔
کچھ لمحوں بعد ہی سڑک پر اس کا بےجان جسم پڑا ہُوا تھا ۔
اپنےڈوبتےحواس کےساتھ اس نےصرف ایک بار آخری لمحہ میں سوچا ۔
” جو کچھ میرےساتھ ہُوا ہے‘ اس وقت دُینا میں سیکڑوں ہزاروں لوگوں کےساتھ ہورہا ہے۔ “
اذان ابھی مکمل بھی نہیں ہونےپائی تھی کہ پتھراو
شروع ہوگیا ۔ وہ مستقل بھیڑ تھی جو کبھی پتھر برساتی توکبھی آگ کےگولےپھینکتی ۔ کبھی گولیاں داغی جاتی ۔ ایک حصہ تو پوری قوت لگا کر توڑا جانےلگا تو دُوسرےحصّےسےآگ کی لپٹیں اُٹھنےلگیں
” اےیو مسٹر ! “
”کون؟ میں ! “
” ہاں تم ! طیّارےسےنیچےاُترو “
” مگر کیوں ؟ مجھےتو پیرس جانا ہے “
” نہیں ! حفاظتی اقدام کےتحت ہمیں تمھیں طیّارےسےنیچےاُتارنا پڑےگا ۔ ہمیں شک ہےکہ تم دہشت پسند ہو اور اس طیّارےکا اغوا کرکےکوئی بہت بڑا دہشت گردی کا کارنامہ انجام دینےوالےہو “
” اِس شک کی کوئی وجہ ؟ “
” تمہارا یہ عربی لباس اور تمہاری یہ داڑھی ! “
” کیا عربی لباس اور داڑھی دہشت گرد ہونےکی علامت ہے۔ “
” ہم کو معلوم نہیں ۔ ہمیں ایسےہی احکامات دئےگئےہیں اور اس وقت ساری دُنیا میں اِس طرح کی احتیاطی کاروائیاں ہورہی ہیں “
” مطلب کا پھیر ہے۔ احتیاطی کاروائی کےنام پر دہشت گردی کی کاروائیاں “
تاریک آسمان گڑگڑاہٹ سےگونج رہا تھا اور پھر دھماکوں کی آوازیں گونجنےلگیں کبھی کبھی دھماکوں میں بےبسی بھری چیخیں بھی شامل ہوجاتی
” ابا ! کیا پھر حملہ ہُواہے؟ “
” بیٹا ! اب یہ تو روز کا معمول ہے۔ “
” لیکن ہم پر حملہ کیوں کیا جارہا ہے؟ “
” اپنی اَنا کی تسکین کےلئے معصوم لوگوں کا خون بہا کر اُن کےگھروں کو اُجاڑ کر اُن کےملک کو کھنڈر میں تبدیل کرکے، اپنی طاقت آزما کر اپنےجھوٹےغرور کا انتقام لیا جارہا ہے۔ “
” بابا یہ کب تک چلےگا ؟ “
” جب تک اُن کی اَنا کی تسکین نہ ہوجائے۔ “
” بابا ہمیں چار دِنوں سےکھانا نہیں ملا ‘ ہم بھوکےہیں ۔ “
” اُنھوں نےبمباری سےہمارےگھروں کو تو اُجاڑا ، اناج کےگوداموں ، اسپتالوں اور راحت کاری انجام دینےوالےاداروں کےدفاتر کو بھی نہیں چھوڑا ہےبیٹا “
” بابا آخر وہ ایسا کیوں کر رہےہیں ؟ “
” کہتےہیں یہ ہماری دہشت گردی کےخلاف لڑائی ہے، دہشت گردی کےخلاف جنگ ، دہشت گردی کرکے ؟ “
ٹرین کا جلا ہُوا ڈبہ اور جلی ہُوئی لاشیں بار بار ٹی وی پر دِکھائی جارہی ہیں ۔
لیڈروں کےاشتعال انگیز بیانات ٹی وی کےاسکرین پر اُبھر رہےہیں ۔
جلی ہُوئی لاشیں
اشتعال انگیز بیانات
عوام کےغم و غصےمیں بھرےچہرے
جلی ہُوئی لاشیں ، ٹرین کا جلا ہُوا ڈبہ
اشتعال انگیز تقریریں ، بیانات
ہزاروں کی بھیڑہےجو اشتعال انگیز اور نفرت انگیزنعرےلگاتی بڑھ رہی ہی۔پولیس چپ چاپ تماشائی بنی اُن کومسکراتےہُوئےدیکھ رہی ہےاور تمباکو مسل کر اپنےمنہ میں ڈال رہی ہی۔
دوکانوں اور مکانوںکو آگ لگائی جار ہی ہے
لوگوںکو دہکتی آگ میں ڈالا جارہا ہی
انہیں تر شولوں سےچھیدا جا رہا ہی
حا ملاو
ں کےپیٹ کاٹ کر ان سےبچےنکالےجا رہےاور انہیں دہکتی آگ میں ڈالا جا رہا ہے
عصمتیںتاراج ہو رہی ہیں ۔
چن چن کر دوکانوں،مکانوں،کاروباری ٹھکانوں کوآگ لگائی جارہی ہی
یہ جو کچھ ہو رہا ہےردِّ عمل ہی۔ ” اگر وہ عمل نہیں ہوتاتواس کا رد عمل نہیں ہوتا ۔“
”حالات پر قابو پا نےکےلیےملٹری بلائی تو ہےلیکن ابھی شہر ملٹری کےحوالےنہیںکیا جا سکتا اس کی کچھ قانونی مجبوریاںہیں۔ ایک ایک ملٹری کی گاڑی کےساتھ ایک ایک مجسٹریٹ دیا جائےگا۔اور حالات کو دیکھتےجب وہ مجسٹریٹ گولی چلانےکا آرڈردےگاتب ہی فوج گولی چلائےگی“
۔ سارا شہر فساد میں گھرا ہی۔مجسٹریٹوں کی تلاش جاری ہی۔ جب اتنےمجسٹریٹ مل گےتو پھرشہر کو فوج کےحوالےکیا جائےگا ۔
شہر میں لوٹ مار ،آتش زدگی،چھرےبازی اور ترشول بازی جاری ہی۔
لوگ مر رہےہیں ، عورتوں کی عصمتیں لُوٹی جارہی ہیں ،بچےیتیم ہورہےہیں ، مسجدوں ، درگاہوں کو مسمار کرکےوہاں منادر بنائےجارہےہیں اوران میں ہنومان جی کی مورتیاں رکھی جارہی ہیں ۔
وحشیوں کا ٹولہ پوری پوری بستیوں کو جلا کر خاک کر رہا ہے
ان بستیوں کےمکینوں کو آگ میں بھون رہا ہے
انتظامیہ تماشا ئی ہی نہیں ہے‘ ان تمام واقعات میں پوری طرح ملوث ہے
نئےقائدین کےچہرےابھر رہےہیں۔
ایڈوانی،مودی،توگڑیا،با ل ٹھا کری
ایک کیمپ
اِس میں لاکھوں لوگ مقید
لُٹےہُوئے، شکستہ ، زخموں سےچُور
کسی نےاپنا پورا خاندان کھو دیا ہے، تو کسی کی بہن لاپتہ ہے، تو کسی کا جوان بیٹا ترشولوں سےچھید کر آگ میں بھون ڈالا گیا ۔
بےیار و مدد گار ، بھوکےپیاسے۔
وہاں نہ پینےکےلئےپانی ہےاور نہ کھانےکےلئےکچھ نہ علاج کےلئےدوائیاں
لیکن پھر بھی وہ شکر ادا کر رہےہیں ۔ اس جگہ وہ اپنےآپ کو محفوظ محسوس کررہےہیں ۔
” سرکار اِس طرح کےکیمپوں کی ذمہ داری نہیں لےسکتی ، اِس طرح کےکیمپ اَمن و اَمان کےلئےخطرہ ہیں “
” اِس طرح کے کیمپ دہشت گردوں کےاَڈّےہیں ۔ اِن کیمپوں میں دہشت گرد پناہ لےرہےہیں ۔ “
یہ کیمپ ملک دشمن سرگرمیوںکےاڈّےبنتےجا رہےہیں۔ یہ آبادی بڑھانےکےکا رخانےہیں
لوٹ مار،آتش زدگی،قتل و خون جار ی ہی۔
اِن لوگوں کو غصہ نہیں آتاہی‘ لیکن جب غصہ آتاہےتو پھر وہ غصہ جلدی ٹھنڈانہیں ہو تا ہی۔ جب تک غصہ ٹھنڈا نہیں ہو تا یہ چلتا رہےگا
گورو یا تراجاری ہی۔
لوگ یاترامیں شامل اشتعال انگیز نعرےلگا رہےہیں ۔
یاترا کا میر کارواں اشتعال انگیز اور نفرت انگیز تقریر کر رہا ہے۔
لاکھوں لوگوں کو بےگھر اُن کی زندگی کا سرمایہ اُجاڑ کر اُن معصوم لوگوں کو قتل کرکے، بچوں کو یتیم کرکے، عورتوں کو بیوہ اور عصمتوں کو تاراج کرکے، اُن کا جشن منایا جا رہا ہے۔
جگہ جگہ گورو یاترائیں نکالی جارہی ہیں ۔
اپنےاِن کارناموں پر شرم نہیں گورو کیا جارہا ہے۔
رام ، کرشن ، بدھ ، مہاویر کی نئی تعلیم ، نئی نسل کو دی جارہی ہے۔
” اےرُک جا کیا نام ہے؟ “
” عبدا لرحیم ! “
” پکڑ لو اِسے‘ یہ کوئی دہشت گرد لگتا ہے۔ اِس کی داڑھی اِس بات کا ثبوت ہے۔ “
” نہیں صاحب ! میں دہشت گرد نہیں ہُوں ۔ میں تو ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہُوں ۔ “
” تعلیم یافتہ نوجوان ہی آج کل ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ جب تم پر پوٹا لگا یا جائےگا اور کئی سالوں تک جب تم جیل میں سڑوگےتو اگر تم دہشت گرد نہیں بھی ہو تو دہشت گرد بن جاو
گے۔ “
” اِسی طرح دہشت گرد بنائےجاتےہیں ۔ “
پولس کی کئی جیپیں آکر رُکیں اور اُن میں سےمسلح پولس کےساتھ ساتھ کمانڈوز بھی اُترےاور اُنھوں نےپوری بستی کو اپنےگھیر ےمیں لےلیا ۔
دیکھتےہی دیکھتےپوری بستی ایک پولس کیمپ میں تبدیل ہوگئی ۔ جو بھی سامنےآتا اُسےروک کر بندوق کی نوک پر اُس سےطرح طرح کےسوالات پوچھےجاتےاور بلا کسی شک و شبہ کےجس کو وہ چاہتےہتھکڑی ڈال کر بیٹھا دیتے۔
عورتوں کی نقابیں اُٹھا اُٹھا کر اُن کےچہرےدیکھےجاتے، چہروں پر سفّاک نظریں ڈالی جاتیں ، تلاشی کےنام پر اُن کےجسم کو چھو کر لذت حاصل کی جاتی ۔
چلتی گاڑیوں کو روک کر اُن میں بیٹھےمسافروں کو نام پوچھ پوچھ کر اُتارا جاتا اور ہتھکڑیاں پہنا کر جیپ میں بیٹھا دیا جاتا ۔
گھروں میں گھس کر بندوق کی نوک پر گھر کےمکینوں کو دہشت زدہ کیا جاتا اور تلاشی کےنام پر گھر کی ہر چیز تہس نہس کردی جاتی ۔
مکانوں کےبند دروازوں کو لات مار مار کر کھولا جاتا ۔ جو دروازےلات مارنےسےبھی نہیں کھل پاتےاُنھیں توڑ دیا جاتا ۔
جن دروازوں کو توڑنےکےبعد مکان میں داخل ہوتے‘ اُن مکینوں پر آفت آجاتی ۔ مکان کےتمام افراد یرغمال بنا لئےجاتے۔ اُس سےبچنےکےلئےلوگ خوف زدہ ہو کر ہاتھ اُٹھا کر ایک قطار میں کھڑےہوجاتے۔
قطار میں کھڑےلوگوں کےساتھ جانوروں کی طرح برتاو
کرتےہُوئےطرح طرح کےسوالات کئےجاتےاور اُنھیں زد و کوب کیا جاتا ۔
” یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اور ہمارےساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے؟ “
” ہمیں پتہ چلا ہےکہ یہ بستی دہشت گردوں کا اڈّا ہے‘ حالیہ بم دھماکوں میں جن دہشت گردوں کا ہاتھ ہےاُن کا تعلق اِسی بستی سےہے۔ اور یہ کاروائی ہماری اُن دہشت گردوں کو تلاش کرنےکی مہم کا حصہ ہے۔
” ہم دُنیا سےدہشت گردی کو اُکھاڑ پھینکنا چاہتےہیں ۔ ہماری جنگ دہشت گردی کےخلاف ہے، ہم جس ملک کو دہشت گرد قرار دےدیں ۔ دُنیا کو ماننا ہوگا کہ وہ ملک دہشت گر د ہےاور ہم اُس ملک کےخلاف جو بھی کاروائی کریں ‘ ہماری کاروائی دہشت گردی کےخلاف جنگ ہوگی ۔ “
رات بھر آسمان سےبم برستےرہے۔ مکان ، دُکان ، دفاتر ، سڑکیں ، چوراہے‘ سب کچھ اِن بموں کی زد میں آکر تباہ ہوتےرہے۔ دہشت سےگھروں میں سمٹےلوگ بموں کو پھٹتےاور اُن سےپھیلتی تباہی کو دیکھتےاپنی جانیں بچانےکی کوشش کرتےرہتے۔
روزانہ کا معمول رہا ۔
ساری دُنیا میں مظاہرےہوتےرہے۔
جنگ بند کی جائے، یہ جنگ ظلم ہے، ہم امن چاہتےہیں ، معصوم لوگوں کی جانیں نہ لی جائیں ، جو لوگ اِس جنگ میں ملوث ہیں وہ شیطان ہیں ۔
لیکن ساری دُنیا کےمظاہروں کا دو شیطانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔
وہ ساری دُنیا کےمظاہروں کو نظر اندازکرکےدہشت گردی کےذریعہ دہشت پھیلاتےرہے۔ اور اپنی کاروائی کو درست قرار دیتےہُوئےاپنی فتوحات کےشازیانےبجاتےرہے۔
سب کچھ ختم ہوگیا تھا ۔
اب ایک خاموشی تھی ، ایک سنّاٹا ۔
چاروں طرف ملبےکےڈھیر ہیں ۔ ٹوٹی ہُوئی عمارتوں سےدُھواں اُٹھ رہا ہے۔ اُن ملبوں کےڈھیر پر بیٹھ کر کچھ لوگ ماتم کررہےہیں ‘ تو کچھ اپنی فتح ، اپنی آزادی کا جشن منا رہےہیں ۔ کچھ اِن ملبوں میں اپنےعزیز و اقارب کو تلاش کررہےہیں ۔
جنگ ختم ہوگئی ۔ لیکن ہماری دہشت گردی کےخلاف جنگ جاری ہے۔ یہ اُس وقت تک ختم نہیں ہوگی ‘ جب تک دُنیا سےآخری دہشت گرد ختم نہ کردیا جائےگا ۔ “
نئےمیزان مرتب کئےجارہےتھے۔ نئےپیمانےڈھالےجارہےتھے۔
ایسا محسوس ہوتا تھا دہشت گردی کےخلاف جنگ کی یہ دہشت گردی نئی صدی کا سب سےبڑا عذاب بن گئی ہے۔
ایم مبین