جب تیرگی میں گھر سے نکلنا پڑا مجھے
دشوار راستوں سے گزرنا پڑا مجھے
آغاز میں سفر کے بہت خوش گمان تھا
جب ٹھوکریں لگیں تو سنبھلنا پڑا مجھے
خود پر انا کا خول چڑھایا تو اسکے بعد
تنہائیوں کے دشت میں رہنا پڑا مجھے
سچ بولنے کا مجھ کو یہی فائدہ ہوا
جو کہہ چکا تھا یاد نہ رکھنا پڑا مجھے
یہ لا دوا مرض ہے خبر تھی مجھے مگر
وہ عمر عشق کی تھی سو کرنا پڑا مجھے
میں آہنی چٹان کی مانند تھا مگر
چاہت کی دھیمی لو سے پگھلنا پڑا مجھے
سعدیؔ خدا کے خوف کو دل میں بسا لیا
پھر بعد میں کسی سے نہ ڈرنا پڑا مجھے
سعید سعدی