- Advertisement -

بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ

ایک غزل از الطاف حالی

بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
مبادا کے ہو جائے نفرت زیادہ

تکلف علامت ہے بیگانگی کی
نہ ڈالو تکلف کی عادت زیادہ

کرو دوستو پہلے آپ اپنی عزت
جو چاہو کریں لوگ عزت زیادہ

نکالو نہ رخنے نسب میں کسی کے
نہیں اس سے کوئی رذالت زیادہ

فراغت سے دنیا میں دم بھر نہ بیٹھو
اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ

جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زباں سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ

مصیبت کا ایک اک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ

کرو ذکر کم اپنی داد و دہش کا
مبادا کہ ثابت ہو خست زیادہ

پھر اوروں کی تکتے پھرو گے سخاوت
بڑھاؤنہ حد سے سخاوت زیادہ

کہیں دوست تم سے نہ ہو جائیں بدظن
جتاؤ نہ اپنی محبت زیادہ

جو چاہو فقیری میں عزت سے رہنا
نہ رکھو امیروں سے ملت زیادہ

وہ افلاس اپنی چھپاتے ہیں گویا
جو دولت سے کرتے ہیں نفرت زیادہ

نہیں چھپتے عیب اتنی ثروت سے تیرے
خدا دے تجھے خواجہ ثروت زیادہ

ہے الفت بھی وحشت بھی دنیا سے لازم
پہ الف زیادہ ،نہ وحشت زیادہ

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

بکے مفت میں ہم زمانہ کے ہاتھوں
پہ دیکھا تو تھی یہ بھی قیمت زیادہ

ہوئی عمر دنیا کے دھندوں میں آخر
نہیں بس اب اے عقل مہلت زیادہ

غزل میں وہ رنگت نہیں تیری حالی
الاپیں نہ بس آپ دھرپت زیادہ

 

الطاف حالی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو کالم از روبینہ فیصل