- Advertisement -

جلتا انسان بےحس لوگ!

عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم

ہر طرف مہنگائی‘ افراتفری‘ اضطراب‘ بے چینی‘ نت نئے مسائل‘ طوفانوں‘ مصائب نے ہمیں آن گھیرا‘ لڑائیاں جھگڑے‘ بے تہذیبی‘ انا‘ مطلب پرستی یہ معمول بن چکا۔ بے شمار لوگ ناگوار باتوں پر تکرار بھی کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ زیادتیوں پر احتجاج بھی کرتے ہیں‘ لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوتا۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ سب ایک دوسرے کے دشمن بنے ہیں۔ نفسانفسی کے اس دور میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں‘جس سے مطلب ہے جس سے کوئی کام ہے وقتی طور پر وہی سب کچھ ہے۔ ہر شخص صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے باقی کچھ نہیں۔ آج ہم صرف اور صرف اپنے لئے جی ر ہے ہیں۔ایک سروے کے مطابق”دُنیا بھر سے مسرت اور خوشیاں کم ہوتی جارہی ہیں“۔ خوشیاں کم ہونے وجہ کہیں ہم اور آپ تو نہیں۔ دور جدید میں سب سے بڑی وجہ آج کا انسان ہے جو خود کو سمجھدار اور چالاک سمجھتا ہے مگر حقیقی خوشیوں اور مسرتوں سے اتنی آہستگی سے دور ہوتا جارہا ہے کہ اسکا احساس تک اسے نہیں ہوپارہا۔

ہم اور ہمارا معاشرہ اُس وقت خوشحال تھا یا آج روپے پیسے اور سوشل میڈیا کے ہونے پر ہم زیادہ خوش اور اچھی زندگی گزار سکتے ہیں‘ مگر نہیں۔تو اس کی وجہ؟اس وقت چین و اطمینان‘تب ہی تھا جب سب ایک دوسرے سے بغیر کسی غرض کے محبت کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں کا م آتے تھے۔ کوئی بھی شخص کسی سے بغیر کسی مقصد اور غرض کے ملاقات کرتا اور اسکے کام کو اولیت دیتا تھا۔ اس کی نسبت آج اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہم ایک عمیق گڑھے میں گر چکے ہیں۔ ہمیں اپنے سوا آج کچھ نظرنہیں آتا۔ اگر کوئی راہ چلتا شخص ہمیں سلام بھی کرتا ہے تو ہم میں سے بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اس نے ہمیں نہ جانتے ہوئے بھی سلام کیوں کیا؟ اسے ہم سے کوئی ”مطلب“ ہوگا۔ اس مطلب پرستی نے ہمیں آج ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ او رہم اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی اپنوں سے دور ہورہے ہیں۔بے شک اپنے لگتے ہوں وہ بھی پرائے لگتے ہیں۔ سب سے بڑی خرابی جو معاشرے میں رائج ہو چکی ہے۔ وہ مفاد پرستی‘ ہماری تعلیم صرف کاغذ کے ٹکڑے تک محدود ہو چکی‘ ہم نے تعلیم صرف ایک کاغذ پر بوجھ کی صورت میں اٹھائی‘ انسانیت ناپید ہو چکی۔ ہمیں بڑے کی تمیز ہے نہ چھوٹے سے شفقت‘ ہم انسانیت سے نیچے جا گرے۔ ہم اپنے مطلب کے لئے خونی رشتوں کی عزت کو بھی تارتار کر رہے‘ مگر ہیں پھر بھی تہذیب یافتہ‘ یہ چالاکی نہیں‘ کم ظرفی اور جاہلیت ہے۔

پہلے انسان بے لوث‘پر خلوص اور طاہر تھا اب آدمی ابن الغرض‘ مطلب پرست‘ حریص اور لالچی ہو گیا ہے۔ اسے جہاں اپنا فائدہ نظر آتا ہے وہاں دوڑ کے جاتا ہے اور جہاں اسے اپنا ذاتی نقصان ہونے کا اندیشہ ہو وہاں جانے کیلئے یہ ہرگز تیار نہیں ہوتا۔ اب تو یہ دوستی اور رشتے بھی وہاں گانٹھ لیتا ہے جہاں اسکی مطلب پرست طبیعت کو قرار آئے۔ اتنا مکار‘ عیار اور فریبی ہو گیا ہے کہ اب یہ تمیز کرنا مشکل ہے کیا یہ واقعی انسان ہی رہا یا اپنا جون بدل کر کوئی اور مخلوق ہو گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان سے ہی معاشرہ وجود پاتا ہے اور یہ بھی صداقت ہے کہ جیسا انسان ہوگا ویسا ہی معاشرہ ہوگا۔ہمارے معاشرے میں عیاری‘ جھانسے بازی اور چکمے بازی کی عادات پڑ گئیں ہیں اور قرب و جوار میں دغا بازوں‘فریب کاروں اور چھلاوا دینے والوں کا بول بالا ہے۔ صادق القول‘ سیدھے سادھے اور مخلص لوگ دھکے کھا رہے ہیں۔ بنا مطلب کے مدد کرنیوالوں کو بے وقوف اور احمق تصور کیا جاتا ہے۔ انسان اتنا لالچی ہو گیا ہے کہ بنا مطلب کوئی کام کرنے کو تیار نہیں جس دن بیمار‘ کبیدہ خاطر اور اندیشہ مند ہوگا اسی دن خدا کو یاد کریگا ورنہ اپنی دھن میں مگن‘ بے پروا اور تغافل شعار ہی رہتا ہے۔ اب حرام اور حلال کا تفاوت دھندلا ہو گیا ہے اور لگتا ہے وہ میزان ہی ٹوٹ گئی ہے جو یہ تمیز کر سکتی۔ جس کام میں انسان کو فائدہ نظر آتا ہے وہ کام کر لیتا ہے۔ دوسروں کا حق مارنا چالاکی تصور کرتا ہے۔ چوری اور دھاندلی کو دانائی‘ چالاکی اور ہنری مندی مانتا ہے۔

ہمارا معاشرہ اتنا پست ہو گیا ہے کہ نیک‘سچے‘ مخلص لوگوں کو تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ با آبرو کو بے آبرو کرنا ہمارا معمول بن گیا ہے۔ جس معاشرے میں انسان کی بجائے زر کو اہمیت دی جائے‘ جہاں انسان سے انسانوں جیسا سلوک روا نہ رکھا جائے۔ انسان‘ انسان سے مراسم فقط اپنے فائدے کیلئے رکھے اس معاشرے میں اخلاقی گراوٹ آنا اور زوال پذیر ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ہمارے معاشرے میں مطلب پرستی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی پر مکمل اعتبار نہیں کرتا حتی کہ اپنے آپ پر بھی نہیں محنت کرنا ہمارا وتیرہ نہیں رہا بلکہ ہم حیلے بہانے سے کامیابی کی سیڑھی چڑھنا چاہتے ہیں چھل دینا ہماری عادت بن گئی ہے۔ انسان‘انسان کو صرف دھوکہ دینے کا عادی بن گیا ہے۔ کبھی زر کیلئے تو کبھی حسد‘بغض اور کینہ پروری میں جل کر ایک انسان اپنے دوستوں اور عزیزوں کو یہ بنیاد بنا کر دھوکہ اور فریب دیتا ہے۔ ہم اپنی بہتری کیلئے اتنے کوشاں نہیں رہتے اور نہ ہی اتنے شاد ہوتے ہیں جتنے دوسروں کی بد تری اور تنزل سے خوش ہوتے ہیں۔ہم حسد رکھنے اور کینہ پروری میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اشرف المخلوقات افضل الخلائق سے صرف اس لیے حسد اور بغض رکھتا ہے کہ وہ کامیابی اور کامرانی کے زینے کیوں چڑھ رہا ہے۔ ایک دوسرے کی ترقی کے بجائے ہم ایک دوسرے کی تنزلی کے خواہاں ہیں۔ ہم ساری اخلاقی قدریں بھول گئے ہیں۔ اگر کوئی خلوص مند ہے تو اس خلوص مند ہونے کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مدعا اور مقصد ہوتا ہے۔کہتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بدلتے دکھائی دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ بے نقاب ہوتے ہیں۔ اور ان کی اصلیت کا پتہ لگتا ہے۔ اور لوگوں کی وفا اور خلوص کا صحیح پتہ تب ہی لگتا ہے۔ اچھے اوقات میں تو سب اچھے ہی ہوتے ہیں۔ اور برے وقت میں لوگ بدلنے میں دیر نہیں کرتے۔مطلب پرستی‘ خود غرضی‘ بناوٹ اور منافقت ہمارے خون میں شامل ہوتی جا رہی ہے۔بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان بیماریوں سے پاک ہیں۔ہم تومن حیثیت قوم‘ مفاد پرستی میں ڈوب گئے ہیں حتیٰ کہ مسکراہٹیں بھی بے مقصد نہیں ہیں۔کبھی حساس افراد اپنی فطرت اور خلوص سے مجبور ہو کر رشتوں ناتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جواب میں ایسا سلوک ہوتا ہے گویا ہم کسی منافقت اور خود غرضی کا مظاہرہ کر رہے ہوں‘ یہ ایک علیحدہ عذاب ہے۔

آج ہم جس خطرناک اضطراب کے دور سے گزر رہے ہیں‘ اس میں ہماری مطلب پرستی‘ خود غرضی‘ پڑھا لکھا جاہل ہونا سب سے بنیادی جزو ہیں۔ایسے معاشرے میں انسان جل رہے اور بے حس لوگ ہیں یہی جدید معاشرے میں ہماری بدنصیبی ہے۔ اللہ ہمیں ہدایت دیں‘ تاکہ ہم مسلمان رہیں۔

 

عابد ضمیر ہاشمی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سالک محبوب اعوان، مظفرآباد