- Advertisement -

سنگم کا ٹینڈوا

سنگم کا ٹینڈوا از کینتھ اینڈرسن

سنگم کا تیندوا
بنگلور میں مجھے گھر میں اطلاع ملی کہ سنگم کے نواح میں ایک تیندوا آدم خور ہو گیا ہے۔ یہ مقام بنگلور سے ستر میل جنوب میں ہے۔
جنوبی ہندوستان میں آدم خور تیندوے بہت کم ملتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ یہاں جنگل نہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں اور نہ ہی مسلسل پہاڑ ہیں جیسا کہ شمال میں ہمالیہ ہے۔ مغربی گھاٹ ایک استثناء ہے کہ یہ پہاڑی سلسلے چار سو میل سے زیادہ طویل اور دس سے پندرہ میل چوڑآئی میں پھیلے ہوئے اور گھنے جنگل رکھتے ہیں۔ تاہم دیگر جنگلات اتنے گھنے نہیں اور ان کے ارد گرد گھنے جنگلات ہیں۔ اسی وجہ سے درندے اور بالخصوص تیندوے مویشیوں اور بکریوں پر ہاتھ صاف کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہاں بکریں اور مویشی بکثرت ہیں اور بسا اوقات پالتو کتے بھی ان کا کھاجا بنتے ہیں۔ کتے اور بندر اس علاقے علاقے میں انتہائی نقصان دہ ہیں۔ یہ کتے گرمیوں میں ریبیز کا شکار ہو جاتے تھے اور ان کے کاٹنے سے بے شمار انسان ہر سال اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے اور جب پاگل کتے کے علاج کی ویکسین آئی تو صورتحال بہتر ہوئی۔ بندر ہمیشہ نقصان دہ ہوتے ہیں اور فصلوں اور پھل دار درختوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ ہندو مت کے ماننے والے بندر کو مقدس جانور گردانتے ہیں اور ان کی ہلاکت یا روک تھام کے سلسلے میں کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔سو جہاں تک کتوں اور بندروں کا تعلق ہے تو تیندوے فائدہ مند ہیں۔
ابھی میں نے مغربی گھاٹ کا ذکر کیا ہے جہاں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے اور اکثر سالانہ 100 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں بانس کے گھنے جنگلات ہیں اور لمبی گھاس اور سدابہار جھاڑیاں پائی جاتی ہیں اور یہاں مچھر، مکھیاں اور دیگر طفیلیے بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔ تیندوؤں کو نہ تو پانی پسند ہوتا ہے اور نہ ہی حشرات۔ اس لیے وہ ایسی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں یہ چیزیں موجود نہ ہوں۔ قدرتی طور پر جنوبی ہندوستان میں جہاں جہاں تیندوے ملتے ہیں، وہاں ان کے لیے کافی خوراک موجود ہوتی ہے سو وہ آدم خوری کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ تاہم گملا پور کا تیندوا ایک استثنا تھا جس کے بارے میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ وہ کن حالات میں آدم خوری کی طرف مائل ہوا۔
بنگلور میں شیروں اور تیندوؤں کے ہاتھوں لوگوں کے زخمی ہونے کے بارے اکثر خبریں پہنچتی تھیں جن میں سے تیندوؤں کا ذکر زیادہ ہوتا تھا۔ تاہم ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا کہ تحقیق کا ایک ہی نتیجہ نکلتا تھا کہ کسی کسان نے اپنی توڑے دار بندوق سے یا کسی اناڑی شکاری نے اندازے سے تیندوے پر گراپ چلائی ہوتے تھے جن سے وہ محض زخمی ہوتا تھا۔ اس کے بعد ناتجربہ کاری کے باعث جب وہ گھنے جنگل میں جانور کا پیچھا کرتا تو تیندوا زخموں کی تکلیف کے سبب اسے گھائل کر دیتا۔ گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات کا کم از کم پچھتر فیصد حصہ زخم خراب ہونے کے سبب ہونے والی اموات کا ہوتا تھا۔ تاہم سلفا ادویات کی آمد کے بعد یہ تناسب دس فیصد سے بھی کم رہ گیا۔
سو ایسی خبروں پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ وجہ بھی تو کوئی ہو۔ انہیں اور کام بہت ہوتے تھے۔ مزید یہ بھی کہ ہندوستان میں افواہیں بہت زیادہ پھیلتی ہیں۔
ہلکی خراش کو شدید زخمی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جب ایک اصل ہلاکت ہو تو اخبار اسے بے شمار ہلاکتیں بنا کر پیش کرتے ہیں۔
سو جب مجھے خبر ملی کہ تیندوے نے ایک عورت کو ہلاک کر دیا ہے اور پھر بعد میں ایک بچے کو بھی سنگم میں کھا گیا ہے تو میں نے یقین نہیں کیا۔ پھر تیندوے نے تیسرا اور چوتھا شکار کیا۔ اخباروں کے صفحہ اوّل پر یہ خبریں چھپیں۔
بنگلور، میسور اور مدراس سے بہت سارے شکاری اس تیندوے کے پیچھے گئے اور ایک شکاری نے ایک تیندوا بھی شکار کر لیا۔ ایک مہینہ گزر گیا اور تیندوے نے مزید کوئی واردات نہیں کی۔ سب یہی سمجھے کہ آدم خور تیندوا ہلاک ہو گیا ہے۔ سو سبھی شکاری واپس لوٹ آئے۔
پھر تیندوے نے ایک اور واردات کی مگر اپنے شکار کو لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکا کہ متوفی اپنے چھپر میں چار پہاڑی کتوں کے ساتھ سو رہا تھا۔ یہ کتے ہرنوں اور خرگوشوں کے شکار کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ چھپر کے دروازے کی جگہ خاردار جھاڑیاں تھیں اور چھت جست کی چادروں پر مشتمل تھی جبکہ قریب قریب لکڑیاں گاڑ کر اور ان میں کانٹے دار جھاڑیاں پھنسا کر دیواریں بنا دی گئی تھیں۔ تیندوا رات کو آیا اور اس نے اپنے پنجوں سے دروازے اور لکڑیوں کے درمیان سوراخ کر لیا۔ تیندوے کی بو پا کر کتے خبردار ہو گئے اور زور زور سے بھونکتے ہوئے ایک طرف سمٹ گئے۔ ظاہر ہے کہ اس شور سے بندہ بیدار ہو گیا ہوگا۔
تیندوا اندر داخل ہوا۔ کتے ایک طرف جمع ہو گئے مگر انہوں نے اور کچھ نہ کیا۔ تیندوا ان کے قریب سے گزر کر بندے کے پاس پہنچا اور اس کے گلے کو دبوچ لیا۔ ایک چیخ مار کر وہ بندہ ہلاک ہو گیا۔
پاس والے جھونپڑے کے مکین کتوں کے بھونکنے اور تیندوے کے غرانے سے بیدار ہو گئے اور سوچنے لگے کہ کیا ہو رہا ہے مگر کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ باہر نکل کر دیکھتے۔ تیندوے نے اسی سوراخ سے اس بندے کی لاش کو باہر نکالنے کی کوشش کی مگر سوراخ کافی چھوٹا تھا۔ سسو تیندوا باہر نکل کر لاش کو باہر گھسیٹنے کی کوشش کرنے لگا۔ لاش کانٹوں میں پھنس گئی۔ تیندوے نے زور کا جھٹکا دیا تو جنگلا زور سے تیندوے پر گرا۔ خوفزدہ ہو کر تیندوے نے راہِ فرار اختیار کی جبکہ متوفی کی لاش اسی طرح پھنسی پڑی رہی۔
تیندوے کے شور سے ہمسائیوں کو علم ہو گیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے شور مچا کر پورے گاؤں کو بیدار کر دیا۔ کافی دیر بعد کچھ بہادر دیہاتی لالٹین اور توڑے دار بندوقیں، لاٹھیں اور ڈنڈے لے کر نکلے تو متوفی کی لاش ملی مگر تیندوا غائب تھا۔
لوگ خبردار ہو گئے اور پٹیل نے خود بنگلور آ کر مجھے خبر پہنچائی۔ اس وقت مجھے دو دن کی چھٹی مل سکی اور اتوار ملا کر تین دن بنے۔ سو میں نے پٹیل سے ان تین دن تیندوے کے شکار کی کوشش کا وعدہ کیا۔
سنگم کو جانے والا راستہ کنکان ہالی سے گزرتا ہے جو بنگلور سے 36 میل دور ہے یہاں سڑک دریائے کاویری میں اچانک خم کھا کر اترتی ہے۔ اس راستے کے آخری دس میل راستہ انتہائی خستہ ہے اور کار کے انجر پنجر ڈھیلے ہو گئے۔ انتہائی دشوار چڑھائیاں، چوڑے موڑ اور مشکل زاویے (اس علاقے میں جنگلی ہاتھیوں سے بچاؤ کی خاطر سنگِ میل اور دیگر علامتیں کالے رنگ سے بنائی جاتی ہیں) سے گزر کر آخرکار میں چھوتے ٹریولر بنگلے کو پہنچا۔ سفر اگرچہ مختصر تھا مگر انتہائی مشکل۔
سنگم کا نام یہاں دریائے کاویری اور ارکراورتھی کے ملاپ کی جگہ کو کہا جاتا تھا جو یہاں سے جنوب کی سمت سیدھا بنگلور کی سمت بہتا ہے۔
یہاں دریائے کاویری مغرب سے مشرق کو بہتا ہے اور سنگم اس کے شمالی کنارے پر میسور ریاست میں واقع ہے۔ جنوبی کنارے پر شمالی کومبتور کا ضلع ہے۔ سنگم سے مشرق میں تیرہ میل دور میسور ریاست ختم ہوتی ہے اور ضلع سالم شروع ہوتا ہے۔ جنوبی کنارے پر ضلع شمالی کومبتور ہے۔ شمالی کومبتور اور سالم ضلع، دونوں ہی مدراس پریزیڈنسی میں واقع ہیں۔
سنگم خوبصورت اور درختوں سے بھرا عالقہ ہے اور یہاں بہترین مہاشیر مچھلی کا شکار بھی ہوتا ہے جبکہ اس کے ریتلے کناروں پر مگرمچھ کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔ میسور والی جانب کے جنگل میجں چیتل، سانبھر، کاکڑ، جنگلی سور اور پرندوں کے علاوہ کبھی کبھار ریچھ، تیندوے اور شیر بھی مل جاتے ہیں۔ ہاتھی کومبتور والے کنارے کو اکثر عبور کرتے رہتے ہیں۔ جنوبی کنارے کے ساتھ ساتھ کومبتور کے جنگلوں میں جنگلی بھینسوں کے کئی ریوڑ بھی پائے جاتے ہیں۔ ہاتھی اور ریچھ تو یہاں عام ملتے ہیں۔
کار کو دریا کے کنارے مٹھی کے بڑے درختوں کے نیچے روک کر میں نے پاس ہی اس دیہات کا چکر لگایا جہاں کتوں کا رکھوالا مارا گیا تھا اور خود جائے وقوعہ کا معائنہ کیا۔ ہمسائیوں نے سارے وقوعے کی تفصیلات بھی بیان کیں جنہوں نے یہ سب کچھ ہوتے سنا مگر مدد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پٹیل جو میرے ساتھ ہی آیا تھا، نے بھی اپنی طرف سے اس واقعے کی تفصیل بتائی۔
سوالات اور جوابات کے بعد ظاہر ہو گیا کہ تیندوے کا شکار کافی مشکل ہوگا کیونکہ شمالی کنارے کا جنگل بہت بڑا اور وسیع ہے اور جنوبی اور کومبتور والی جانب بھی جنگل میلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم جنوبی کنارے کی اتنی اہمیت نہیں تھی کہ شیر اور تیندوے پانی کے شائق نہیں ہوتے اور بڑے دریا عبور کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تاہم اگر انہیں عبور کرنا پڑے تو بہت اچھے تیراک ثابت ہوتے ہیں۔
سب سے پہلا اور متوقع کام گارے باندھنا تھا۔ پٹیل کی مدد سے ہم نے پانچ بچھڑے خریدے۔ پہلے کو ہم نے بنگلے سے مغرب کی جانب نصف میل کی دوری پر باندھا جہاں سے دریا بھی اتنا ہی دور تھا۔ دوسرا دریا کے ساتھ سیدھی لکیر میں ایک میل مزید مغرب کی سمت باندھا، تیسرا اس سے ایک میل مزید دور، چوتھا ارکاورتھی ندی کے کنارے اور بنگلے اور دریائے کاویری دونوں سے نصف میل دور جبکہ پانچواں اس سے ایک میل مشرق میں باندھا۔ اس طرح یہ پانچوں تقریباً ایک سیدھے خط میں باندھے گئے تھے اور دریا سے ان کا زیادہ سے زیادہ فاصلہ نصف میل تھا۔ مشرق سے مغرب تک ان کا کل فاصلہ چار میل تھا۔
مغرب کے بعد میں بنگلے پہنچا۔ برآمدے میں بیٹھ کر ٹھنڈے کھانے سے پیٹ بھرا اور پھر چائے کے دو مگ پیے۔ پھر پائپ سلگا کر میں نے دیوار سے ٹیک لگائی اور دریا کے بہاؤ کی آواز سننے لگا۔ رات کافی تاریک اور مطلع ابر آلود تھا۔ تھوڑے بہت ستارے گزرتے بادلوں سے دکھائی دے جاتے مگر ان کی روشنی ناکافی تھی۔ سو میں کمرے میں سونے چلا گیا۔
اگلی صبح ہم نے گاروں کو دیکھا۔ سبھی زندہ سلامت تھے۔ میں نے پچھلے روز والی سڑک پر مٹرگشت کی۔ تاہم کہیں تیندوے کے پگ دکھائی نہ دیے۔ چیتلوں کے ایک مندے اور تین سانبھر کے پگ دکھائی دیے جو رات کو یہاں سے گزرے تھے۔ اور کسی جانور کے پگ نہ دکھائی دی۔
بنگلے کو واپس لوٹتے ہوئے میں نے سڑک کی بجائے پہاڑی اور جنگل سے گزرنے کا فیصلہ کیا اور راستے میں ارکاورتھی ندی کے خشک پاٹ سے گزرا اور وہاں سے جنوب کا رخ کیا اور نہر کے ریتلے پیندے پر چلتے ہوئے پگ تلاش کرتا گیا۔ تاہم کوئی پگ نہ دکھائی دیے البتہ چیتلوں کا وہی مندہ یہاں سے بھی گزرا تھا۔ جلد ہی میں چوتھے گارے کے قریب سے گزرا اور اس مقام پر پہنچا جہاں ارکاورتھی ندی دریائے کاویری میں گرتی ہے۔
تین میں سے ڈیڑھ دن گزر چکے تھے اور میں نے ابھی تک تیندوے کے پگ بھی نہیں دیکھے تھے۔ صورتحال کافی مایوس کن تھی۔
دوپہر کا کھانا کھا کر میں نے مشرقی سمت جانے کا سوچا۔ یہاں ساڑھے تین میل دور دریا ایک کھائی سے گزرتے ہوئے محض بیس فٹ چوڑا رہ جاتا ہے۔ اس مقام کو مقامی زبان میں ‘بکری کی جست‘ کہا جاتا ہے۔ روایات میں ہے کہ بہت برس پہلے یہاں جنگلی بھیڑ جنگلی کتوں سے بچاؤ کے لیے بھاگتی ہوئی کومبتور کی جانب سے آئی اور دریا کے کنارے اس نے عظیم جست لگائی اور میسور والی سمت پہنچ کر کتوں سے بچ گئی۔
یہاں پانی کے شور کے سامنے ہر قسم کی آواز دب جاتی ہے اور انسان کو اس کی اپنی چیخ بھی سنائی نہیں دیتی۔
میں چٹانوں پر یٹھ کر پانی کو دیکھتا رہا۔ سو گز دور پانی کی سطح پھر ہموار ہو گئی تھی اور کبھی کبھار کوئی مچھلی ہوا میں جست لگا کر پانی کی سطح توڑتی۔ مچھلیاں کھانے والا باز آسمان پر چکر کاٹ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے واپس بنگلے کا رخ کیا۔ ابھی تک تیندوے کے پگ دکھائی نہیں دیے تھے۔
رات کو مطلع صاف تھا۔ اگرچہ چاند نہیں تھا مگر ستاروں کی روشنی اتنی تھی کہ چند گز دور کی چیز صاف دکھائی دیتی تھی۔
بنگلے کے رکھوالے کے پاس ایک دیسی کتا تھا جو میں نے اپنی عادت کے برخلاف گارے کی نیت سے نصف شب کے لیے ادھار مانگ لیا۔ پہلے تو وہ جھجھکا مگر پھر تین روپے لے کر اس نے کتا میرے حوالے کر دیا۔
دن کے وقت چلتے ہوئے میں نےا یک میل دور ایک پتھریلا کنارہ دیکھا تھا۔ میں نے کتے کو وہاں لے جا کر ایک پتھر سے باندھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب کتا نظروں سے اوجھل ہو گیا تو میں واپس اس چٹان کی سمت چھپتا چھپاتا پہنچا۔ پھر انتہائی خاموشی سے میں اس چٹان پر چڑھا اور لیٹ گیا۔ پتھر ابھی تک سورج کی گرمی سے تپ رہا تھا۔
کتا یہ سمجھا کہ میں اسے چھوڑ کر چلا گیا ہوں، سو اس نے بھونکنا اور رونا شرعو کر دیا۔ کتے بہت عقلمند ہوتے ہیں اور انہیں گارا بنانا ظلم کے مترادف ہوتا ہے۔ گائے بکری کے برعکس کتوں کو خطرے کا فوری احساس ہو جاتا ہے اور اگرچہ ان پر حملہ نہ بھی ہو تو بھی وہ بہت دیر تک ذہنی تکلیف کا شکار رہتے ہیں۔ ایک بار ایک کتے کو جب گارے کے طور پر باندھا گیا تو تیندوے نے اس پر حملہ نہیں کیا۔ مگر اگلے روز کتا بیمار پڑ گیا اور ایک ہفتے بعد مر گیا۔
میں چٹان کے اوپر سے دیکھتا رہا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا اور پھر ایک بھورے رنگ کا سایہ سا سڑک پر آتا دکھائی دیا۔ یہ سایہ کتے سے دس فٹ دور رک گیا۔ کیا یہ تیندوا ہے؟
ستاروں کی روشنی اتنی مدہم ہوتی ہے کہ تاریکی کم گہری ہو جاتی ہے مگر کچھ واضح دکھائی نہیں دیتا۔مجھے محض ایک بھورے رنگ کا سایہ سا کتے کی طرف متوجہ دکھائی دیا۔ کتے کا رخ اسی کی جانب تھا اور زور زور سے غرا رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ تیندوا ہی ہوگا، اور پھر میں نے اس سمت رائفل اٹھائی اور رائفل پر لگی ٹارچ جلائی۔
یہ سایہ لگڑبگڑ کا تھا جو جنوبی ہندوستان میں عام پایا جاتا ہے۔ کتا اور زور سے غرا رہا تھا اور پھر بھونکنے لگا۔
اب اصل ڈرامہ شروع ہوا جو ہندوستانی جنگلوں میں بعض لوگوں نے ہی دیکھا ہوگا۔ لگڑبگڑ دوڑ کر کنارے پر موجود جھاڑیوں میں چھپ گیا اور اپنی منحوس آواز میں بولنے لگا۔
کتا اس کی جانب منہ کر اور زور سے بھونکنے لگا۔ پھر لگڑبگڑ کا شور بڑھ گیا۔
افریقی لگڑبگڑ کی آواز ہنسی سے مشابہہ ہوتی ہے جبکہ ہندوستانی بھورا اور دھاری دار لگڑبگڑ عموماً خاموش رہتا ہے اور اکیلا یا جوڑوں کی صورت میں شکار پر نکلتا ہے۔ دھبے دار لگڑبگڑ غول کی صورت میں پھرتا ہے۔ اصولی طور پر تمام لگڑبگڑ بزدل ہوتے ہیں مگر ان کی جسامت کے حساب طاقتور سے ان کے جبڑے بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر یہ انسان کے بازو پر کاٹیں تو بازو کو صاف پار کاٹ جائیٰں گے۔
کبھی کبھار انتہائی بہادری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں جن میں سے ایک کا میں نے مشاہدہ کیا تھا۔ میں ایک بار تیندوے کے شکار کے لیے مچان پر بیٹھا تھا۔ تیندوا آ گیا اور پیٹ بھرنے لگا۔ میں نے تیندوے کی جنس کے بارے جاننے کی غرض سے انتظار کیا۔ مجھے اطلاع ملی تھی کہ اس جگہ ایک نر اور ایک مادہ تیندوا موجود ہیں اور مادہ کے ساتھ چھ ماہ کے دو بچے بھی ہیں۔ سو میں نر کو مارنے کے ارادے سے آیا تھا۔
جتنی دیر میں انتظار کرتا رہا، لگڑبگڑ بھی پہنچ گیا اور اس مرتبہ اس کی آمد کافی ڈرامائی تھی۔ مجھے اس کی آمد کی اطلاع تک نہ ہوئی اور وہ اچانک عجیب عجیب آوازیں نکالتا ہوا تیندوے پر چڑھ دوڑا۔ تیندوا اپنے شکار پر چڑھ کر اسے گھورنے لگا اور ساتھ غراتا بھی رہا۔ لگڑبگڑ تیندوے سے پانچ فٹ کے فاصلے پر پہنچ کر انتہائی منحوس آوازیں نکالنے لگا جیسے کوئی بدروح واویلا کر رہی ہو۔
تیندوا بھی زیادہ زور سے غرانے لگا اور بار بار لگڑبگڑ کو پنجہ مارنے کی کوشش کرتا۔ تاہم ہر بار لگڑبگڑ پیچھے ہٹ جاتا اور پھر فوراً آگے بڑھتا اور تیندوے کے عقب کا رخ کرتا۔ پہلے پہل تو تیندوا بھی اس کے ساتھ ساتھ گھومتا رہا اور پنجہ گھماتے ہوئے لگڑبگڑ کو بھگانے کی کوشش کرتا رہا۔ تاہم لگڑبگڑ ہمیشہ اس کی پہنچ سے دور رہا اور اسی طرح آوازیں نکالتا رہا۔
ڈر یا پھر تنفر کے مارے تیندوا آخرکار اپنے شکار سے ہٹ کر ایک طرف چل دیا جبکہ لگڑبگڑ کی منحوس آوازیں جاری رہیں حتیٰ کہ تیندوا جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ پھر اس نے شکار کا رخ کیا اور انتہائی رغبت سے گوشت کھانے لگا۔
تاہم جس لگڑبگڑ کو میں اب دیکھ رہا تھا، وہ اس کتے سے خوفزدہ تھا۔ بار بار وہ سڑک کے ایک یا دوسری جانب غائب ہو جاتا اور پھر لوٹ آتا اور اس کی منحوس لے بھی جاری رہی۔
ان دونوں واقعات سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ لگڑبگڑ اپنی منحوس آوازوں سے اپنے مخالف کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلے لگڑبگڑ نے تیندوے کو اس کے شکار سے بھگا دیا تھا اور اب یہ لگڑبگڑ کتے کو اس لیے ڈرا رہا ہوگا کہ کتا راستے سے ہٹ جائے یا پھر جھاڑیوں میں گھسے تاکہ اس پر حملہ آسان ہو۔
چونکہ کتا بندھا ہوا تھا، سو وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکا اور لگڑبگڑ کو یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ ایک گھنٹہ تک یہی کچھ ہوتا رہا اور آخرکار مجھے یقین ہو گیا کہ لگڑبگڑ کی نحوست بھری آوازوں سے تیندوا کبھی کا دور نکل گیا ہوگا۔ سو میں نے ایک پتھر اٹھایا اور لگڑبگڑ کو دے مارا۔ پتھر ذرا پہلے گرا اور سڑک پر آواز پیدا ہوئی۔ تیندوا بوکھلاہٹ سے اچھلا اور جھاڑیوں میں گھس گیا۔ کتے نے بھونکنا بند کر کے کانپنا شروع کر دیا۔ میں سمجھا کہ لگڑبگڑ اب دفع ہو گیا ہوگا۔
بمشکل پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ پھر لگڑبگڑ کی بکواس شروع ہو گئی۔ کتا بھی بھونکنے اور غرانے لگا۔ میں نے ایک اور پتھر پھینکا اور اس بار دس منٹ کے لیے خاموشی چھا گئی۔ کئی بار یہی ہوا۔ پانچویں پتھر کے بعد جا کر لگڑبگڑ کو احساس ہوا کہ اب اسے جانا چاہیے، سو دس بجے وہ دفع ہوا۔ِ
بارہ بجے سے پانچ منٹ قبل مجھے انسانی آوازیں آتی سنائی دیں۔ تھوڑی دیر بعد دو لالٹینوں کی روشنیاں نمودار ہوئیں اور کئی افراد دکھائی دیے۔ کتے نے انہیں دیکھا تو چپ ہو گیا۔
جب وہ لوگ کتے کے قریب پہنچے تو میں نے گنا کہ وہ گیارہ تھے۔ دو کے پاس لالٹین تھے اور باقی تقریباً سبھی کے پاس لاٹھیاں اور ڈنڈے تھے۔ ایک بندہ توڑے دار بندوق سے مسلح تھا۔ وہ میری ہی تلاش میں آئے تھے۔ میں نے انہیں آواز دی اور چٹان سے اتر آیا۔
انہوں نے بتایا کہ بمشکل ایک گھنٹہ قبل تیندوا اسی گاؤں کے ایک جھونپڑے میں گھسا اور پچیس سال کی ایک عورت کو گلے سے پکڑ لیا۔ اس جھونپڑے میں پانچ افراد سو رہے تھے۔ عورت نے چیخ ماری تو باقی سب بھی اٹھ گئے جو اس کا باپ، اس کی ماں اور دو بھائی تھے۔
اسی دوران تیندوا اس عورت کو گھسیٹ کر اسی سوراخ سے نکالنے کے چکر میں تھا کہ جس سے وہ اندر آیا تھا۔ لڑکی نے سخت مزاحمت کی۔ تیندوا نے اسے چھوڑ کر بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ ایک بھائی نے دیاسلائی جلا کر روشنی کی۔ اس کے باپ نے انتہائی بہادری اور حاضردماغی کے ساتھ جو ہاتھ میں آیا، تیندوے پر دے مارا۔ اتفاق سے اس کے ہاتھ تانبے کا گھڑا لگا جو کافی وزنی تھا۔ آدم خور چاہے تیندوا ہو یا شیر، ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں اور یہ تیندوا بھی بزدل تھا۔ اپنے شکار کو چھوڑ کر اس نے فوراً راہِ فرار اختیار کی۔
زخمی لڑکی کی چیخوں اور گھر والوں کے شور کی وجہ سے پورا گاؤں بیدار ہو گیا تھا۔ مرد حضرات لالٹینوں اور لاٹھی ڈنڈوں سے مسلح ہو کر نکل آئے۔ پھر ان میں سے گیارہ افراد مجھے تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے اور بنگلے کے چوکیدار نے انہیں بتایا کہ میں اس کے کتے کے ساتھ کہاں بیٹھا ہوں گا۔
میں نے انہیں ہدایت کی کہ کتے کو کھول کر ساتھ لیتے آئیں اور ہم بعجلت بنگلے کو چل پڑے۔ وہاں کار کی عقبی نشست سے ابتدائی طبی امداد کا سامان اٹھا کر ہم نے گاؤں کا رخ کیا جہاں خوفناک منظر دکھائی دیا۔ لڑکی کے دائیں شانے کو بری طرح چبایا گیا تھا۔ اس کے پیٹ پر بھی کافی زخم تھے۔ دائیں چھاتی اور پستان لیرا لیر ہو گئے تھے۔ اس کی قمیض اور ساڑھی بھی پھٹ چکی تھی اور بیچاری لڑکی اپنے خون میں نہائی بیہوش پڑی تھی۔
مجھے فوراً پتہ چل گیا کہ میری طبی امداد بالکل کافی نہیں ہوگی۔ سو اس کے زخموں کو پوٹاشیم پرمیگنیٹ کے محلول سے دھو کر میں نے ایک اور ساڑھی سے پٹیاں پھاڑ کر اس کے زخموں پر ہر ممکن احتیاط سے باندھ دیں۔ پھر اس کے باپ، دو بھائیوں اور تین دیگر افراد کی مدد سے اسے چارپائی پر ڈال کر بنگلے میں لائے اور وہاں اسے گاڑی میں ہر ممکن احتیاط سے لٹا کر میں نے اس کے باپ اور بھائیوں کو ساتھ لیا اور سیدھا کنکان ہالی کا رخ کیا جہاں قریب ترین دیہاتی ہسپتال تھا۔ ساڑھے تین بجے ہم پہنچے اور ڈاکٹر کو جگا کر مریضہ اس کے حوالے کی۔ اس کی حالت کافی نازک تھی کہ خون بہت بہہ گیا تھا۔
ساڑھے چار بجے میں کنکان ہالی کے ٹریولر بنگلے میں نہا رہا تھا جہاں میں اپنے خون آلود کپڑے اتارے۔ پھر میں نے بنگلے کے بیرے سے کمبل اور صاف دھوتی ادھار لی کہ عجلت میں مجھے اپنے کپڑے ساتھ لانا یاد نہیں رہا تھا۔
پو پھٹ رہی تھی کہ میں نے ڈاک خانے پر دستک دی اور بہت مہربان پوسٹ ماسٹر کو نیند سے جگا کر لیٹ فیس کے ساتھ ہنگامی تار بنگلور بھیجا کہ مجھے چار دن کی اضافی رخصت دی جائے۔
جب میں بنگلے میں پہنچا تو لڑکی کا چھوٹا بھائی میرا منتظر تھا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ ابھی ہسپتال سے یہ بتانے آیا ہے کہ اس کی بہن مر گئی ہے۔ کچھ دیر بعد اس کا باپ یہ درخواست کرنے آیا کہ متوفیہ کو اپنی کار میں سنگم پہنچا دوں تاکہ وہاں دریائے کاویرے کے کنارے اسے جلا کر راکھ بکھیری جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسی درخواست کو کون رد کر سکتا ہے۔ اسی اثنا میں بیرے نے اپنی دھوتی اور کمبل واپس مانگ لیا۔ سو مجبوری میں اپنے خون آلود کپڑے دوبارہ پہنے۔
ہم ہسپتال گئے اور متوفیہ کی لاش کو پچھلی نشست پر لٹا دیا اور واپس لوٹے۔ راستے میں پولیس میں رپورٹ درج کرانے میں دو گھنٹے مزید لگ گئے۔
دریا کے کنارے پر مگرمچھوں سے پاک سرد تالاب میں غسل کر کے میں نے کپڑے بدلے اور ٹھنڈا کھانا کھا کر گرما گرم چائے کے دو بڑے پیالے پیے۔ پھر بنگلے کے برآمدے میں پرانی کرسی پر نیم دراز ہو کر میں نے پائپ سلگایا اور ساری صورتحال کا جائزہ لیا اور اونگھنے لگا۔
تیندوے کے شکار کی خاطر میرے پاس کل چار دن اور پانچ راتیں تھیں۔ خدا جانے ابھی اور کتنے آدم خور اس علاقے کی قسمت میں لکھے تھے۔ جو حقائق سامنے آئے وہ کچھ یوں تھے: اول، تیندوا گارے کو متوجہ نہیں ہوگا۔ دوئم، بہت بڑا علاقہ اس کی آماجگاہ ہے۔ سوئم، اب وہ لوگوں کو جھونپڑوں میں گھس کر بھی ہلاک کرنا شروع ہو گیا تھا۔ اسی دوران مجھے نیند آ گئی۔
تین بجے میں بیدار ہوا تو نیند کے دوران ہی مجھے لائحہ عمل سوجھ گیا تھا۔
سنگم کا چھوٹا سا دیہات بارہ گھروں پر مشتمل تھا اور عام رواج کے مطابق ایک گلی وسط سے گزرتی تھی اور دونوں جانب گھر بنے ہوئے تھے۔ مجھے یاد تھا کہ گلی کی جنوبی سمت اور دریا کے کنارے کے پاس مویشیوں کا ایک باڑہ تھا جہاں سارے گاؤں کے مویشی باندھے جاتے تھے۔ اس کے گرد بانسوں سے دیوار بنائی گئی تھی اور خاردار جھاڑیاں بانسوں میں اڑس دی گئی تھیں۔ باقی گاؤں میں محض وہی کتے بچ گئے تھے جن کا مالک تیندوے کا شکار بنا تھا۔ یہ کتے اسی کے جھونپڑے میں بند تھے اور یہ جھونپڑا مویشیوں کے اسی باڑے کی مغربی دیوار کے ساتھ بنا تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر باڑے کے اندر چھپ جاؤں تو تیندوے کی جانب سے اچانک حملے کا اندیشہ بھی نہیں رہے گا کہ مویشی تیندوے کی موجودگی بھانپ لیں گے۔ دوسرا پاس والے جھونپڑے سے کتے بھی شور کریں گے۔ اس کے علاوہ اپنے خریدے ہوئے پانچوں گارے بھی بندھواتا رہوں گا مبادا کہ تیندوا ان کی طرف متوجہ ہو جائے۔
یہ سوچ کر میں نے رات کے لیے گرم کپڑے پہنے۔ اس کے علاوہ چائے کا بڑا تھرماس، کچھ بسکٹ اور پائپ اور تمباکو بھی اٹھا لیے کہ احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
تیندوے کی وجہ سے سارے گاؤں والے اپنے گھروں میں دبک گئے تھے اور دروازوں اور چھتوں پر خاردار جھاڑیاں کاٹ کر لگا دی گئی تھیں۔ سو میں نے باڑے کے وسط میں ڈیرہ جما لیا۔ یہاں سے ہر سمت پچاس پچاس گز تک باڑہ تھا اور سو کے قریب مویشی تھے۔
پہلے پہل مویشی میری موجودگی کو ناپسند کرتے رہے اور کناروں پر رہنے کو ترجیح دی۔ میں وسط میں اکیلا بیٹھا تھا۔ پھر میں نے ان سے دوستی کی کوشش شروع کر دی۔ ایک نے تو میری تھرماس کو لات مار دی۔ کچھ بیل کافی غصے میں تھے اور جب بھی قریب ہوتا تو سینگ دکھاتے۔ تاہم ایک گھنٹے کی محنت کے بعد ان سے کچھ کچھ دوستی شروع ہوئی اور کچھ مویشی میری جانب آنا شروع ہو گئے۔نصف مویشی تو سونے کے لیے لیٹ گئے تھے۔ میں بھی لیٹ گیا۔
گھنٹے گزرتے رہے اور سناٹا رہا۔ کبھی کبھار کسی مویشی کے پھنکارنے کی آواز آ جاتی یا وہ حرکت کرتے۔ ایک گائے نے اپنی تھوتھنی میرے سینے سے لگا لی۔ آخرکار وہ میرے پاس ہی لیٹ گئی۔
مویشیوں کے پسو مجھے کاٹنے لگے۔ بار بار کھجلاتا اور یہ بھی علم تھا کہ جتنا کھجلاؤں گا، کھجلی اتنی بڑھتی جائے گی۔ سردی ہونے لگ گئی تھی سو میں گائے کے ساتھ لیٹ گیا۔ وقتاً فوقتاً کوئی جانور آواز یا حرکت کرتا۔
گھنٹے گزرتے رہے اور پسو کاٹتے رہے۔ ایک بجے سانبھر گاؤں کے شمال والی پہاڑی پر سے آواز نکالی۔ مادہ سانبھر کی آواز تھی جو کئی بار آئی۔ پھر کاکڑ بولا۔
مادہ سانبھر خاموش ہو گئی تھی جبکہ کاکڑ نے پہاڑی پر چڑھ کر وقفے وقفے سے شور کرنا جاری رکھا۔ ان کے خوف کی جو بھی وجہ ہو، وہ اب پہاڑی سے اتر آئی تھی۔
بیس منٹ بعد چیتل بولنا شروع ہو گئے جو پہاڑی سے لے کر دریا کے کنارے تک پھیلے ہوئے تھے۔ انہیں شیر یا تیندوا دکھائی دیا ہوگا۔ اگلے چند منٹ میں پتہ چل جاتا کہ آیا یہ آدم خور ہے یا عام درندہ۔
تاریکی بہت گہری تھی کہ اچانک مویشی بیدار ہو گئے۔ ایک ساتھ سبھی زمین سے اٹھے اور میں بھی ان کے ساتھ اٹھا اور گائے کے پیچھے پیچھے رہا۔ کچھ بیل پھنکارنے لگے۔ ان سب کا رخ گاؤں کی گلی کی سمت تھا۔
سبھی مویشی بے چین ہو کر باڑے کے دوسرے سرے پر جمع ہو گئے۔ ساتھ والے جھونپڑے کے کتے جو اب تک بھونک رہے تھے، اب اچانک رونے لگے۔ ان کے خوف کی جو بھی وجہ تھی، وہ اس وقت عین ہمارے سامنے سے گزر رہی تھی۔
میں اس وقت تک مویشیوں کے وسط میں پھنس چکا تھا اور مجھے خیال رکھنا پڑ رہا تھا کہ کہیں مویشیوں کے سینگ نہ لگیں۔ پھر میں نے سامنے والے دروازے کی طرف راستہ بنانا شروع کیا تاکہ وہاں پہنچ کر کچھ دیکھ سکوں۔ مگر تاریکی اور باڑ کی وجہ سے کچھ نہ دکھائی دیا۔
مجھے کتوں کی آوازیں آ رہی تھیں جو اب بھونکنے کی بجائے رونے لگ گئے تھے۔ اگرچہ میرے کان معمولی سے معمولی آواز سننے کو تیار تھے مگر شور اتنا مچا ہوا تھا کہ کچھ سنائی نہ دیا۔ چند منٹ بعد مجھے ایسی آواز آئی جیسے کسی چیز کو کھرچا جا رہا ہو۔ مزید غور کیا تو یہ آواز گلی میں دائیں جانب سے آ رہی تھی۔ کتے مزید شور کرنے لگے۔ پھر مججھے احساس ہوا کہ تیندوا کسی گھر کے دروازے کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مویشیوں سے راستہ بنا کر میں باڑ کے پاس پہنچا اور ٹارچ جلانے کے بعد اچک کر دیکھنے لگا کہ شاید تیندوے کا کوئی حصہ دکھائی دے جائے۔ عین اسی لمحے اس جھونپڑے کے مکینوں نے شور مچا دیا اور کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔
میں سمجھا کہ آدم خور جھونپڑے میں گھس گیا ہے، میں نے احتیاط کا دامن چھوڑتے ہوئے باڑے کا دروازہ کھولا۔ بدقسمتی سے شام کو یہاں داخل ہوتے ہی میں نے Y شکل کا ایک ڈنڈا اس کے پیچھے گاڑ دیا تھا، جس کی وجہ سے دروازہ کھولنے میں چند سیکنڈ لگے۔ اسے ایک طرف پھینک کر میں نے ٹارچ جلائی اور دروازہ بند کر کے گلی میں آیا۔ تیندوا کہیں دکھائی نہ دیا۔ عقب سے حملے سے بچاؤ کی خاطر باڑے کی دیوار سے ٹیک لگا کر میں نے ہر طرف ٹارچ کی روشنی پھینکی مگر تیندوا غائب ہو چکا تھا۔ اس دوران جھونپڑے کے مکینوں کی چیخ و پکار پورے زور و شور سے جاری رہی۔
پھر مجھے خیال آیا کہ شاید تیندوا اسی جھونپڑے میں گھسا ہوا ہے اور مکینوں کی چیر پھاڑ کر رہا ہے۔ سو میں نے انتہائی احتیاط سے بیس گز کا فاصلہ طے کیا اور جھونپڑے کو جا پہنچا۔
جب میں اس کے دروازے کے سامنے پہنچا تو وہ بند تھا۔ میں نے مکینوں کو آواز دی۔ پہلے پہل تو ان کے شور کی وجہ سے میری آواز نہ سنائی دی مگر پھر جب میں نے دوبارہ زور سے آواز دی تو وہ لوگ بتدریج خاموش ہوتے گئے۔
میں نے انہیں دروازہ کھولنے کا کہا۔ مگر وہ اس پر تیار نہ تھے۔ پہلے انہوں نے پوچھا کہ میں انسان ہوں یا شیطان۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کون ہوں اور یہ بھی کہ تیندوا جا چکا ہے۔ انہوں نے صاف انکار کیا اور کہا کہ اب یہ دروازہ صبح کو ہی کھلے گا۔ اس دوران میں نے ٹارچ کی روشنی میں زمین اور دروازے پر تیندوے کے پنجوں کے تازہ نشانات دیکھے جہاں وہ دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
میٰں باڑے کو لوٹا اور دوبارہ ڈنڈا اسی طرح پھنسا کر دروازہ بند کیا اور اس جگہ کو لوٹا جہاں میں پہلے بیٹھا تھا۔
مجھے چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ بدقسمتی سے مویشیوں نے بھاگم دوڑ میں میری تھرموس توڑ دی تھی۔بسکٹ بھی کھائے جا چکے تھے اور وہی گائے کہ جو میرے پاس بیٹھی تھی، اب بسکٹ کے کاغذ کو چبا رہی تھی۔ خوش قسمتی سے میرا پائپ اور تمباکو جیب میں تھے، سو میں نے بقیہ رات پھر اسی گائے سے ٹیک لگا کر آرام سے کاٹی۔
صبح پو پھٹتے ہی میں بنگلے کو لوٹا اور بہت تھکا ماندہ اور مایوس تھا۔ پسوؤں کے کاٹنے سے شدید کھجلی ہو رہی تھی۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ اگلے دس روز تک یہ کھجلی بڑھتی جائے گی اور تکلیف میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
سرد پانی سے غسل کر کے میں نے گرم چائے، ڈبہ بند بیکن، ڈبل روٹی اور مکھن سے اپنا پیٹ بھرا اور ساڑھے سات بجے سو گیا۔ دوپہر کو کھانا کھانے اٹھا اور پھر دوبارہ تین بجے تک کے لیے سو گیا۔ پھر میں نے ایک اور منصوبہ سوچنا شروع کیا۔
ظاہر ہے کہ اب دوبارہ باڑے میں رکنا ناممکن تھا ورنہ پسو کاٹ کاٹ کر مجھے ادھ موا کر دیتے۔ تاہم یہ بات بھی اہم تھی کہ تیندوے کی آمد کے بارے مجھے مویشیوں اور کتوں نے ہی بروقت خبردار کیا تھا۔
آخرکار میں نے ایک نیا منصوبہ سوچا۔ کتوں والے جھونپڑے کی چھت جستی چادروں سے بنی تھی۔ اگر میں اس چھت پر لیٹ کر خود کو چھپا لیتا تو مجھے گلی صاف دکھائی دیتی اور جونہی تیندوا گزرتا، میں اسے مار لیتا۔ کتے اور مویشی مجھے تیندوے کی آمد سے خبردار کر دیتے۔ چھت پر اپنے پیچھے اور اطراف میں خاردار کانٹے بچھا کر وہاں سے بے خوف ہو جاتا۔ اگر تیندوا چھت پر جست بھی لگاتا تو اتنی آواز پیدا ہوتی کہ مجھے بخوبی سنائی دیتی۔ یہ واحد اور بہترین حل سجھائی دیا۔
سو اپنا شکاری سامان اٹھا کر میں گاؤں کو لوٹا۔ میں نے بسکٹ اور چائے بھی ساتھ اٹھائی تھی (چائے کے لیے میں نے بنگلے کے چوکیدار سے شراب کی خالی بوتل ادھار لی تھی)۔ پھر دیہاتیوں کو اپنا منصوبہ بتایا تو وہ لوگ فوراً کانٹے اور خاردار جھاڑیاں کاٹ کر کتوں والے جھونپڑے کی چھت پر جمع کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے ان کانٹوں کے وسط میں بھوسہ بچھایا تاکہ مجھے زیادہ تکلیف نہ ہو۔
چھ بجے میں اپنی جگہ پر پہنچ گیا۔ فوراً ہی دو نقصانات معلوم ہوئے: پہلا تو یہ کہ گلی کا رخ کرنے پر میری ٹانگیں باقی جسم کی نسبت ذرا سا زیادہ بلندی پر تھیں کیونکہ چھت کا زاویہ کچھ ایسا تھا کہ بارش کا پانی گلی میں گرتا۔ دوسرا یہ کہ ساری رات مجھے اوندھا لیٹنا پڑتا کہ ذرا سی حرکت سے بھی خاصی آواز ہوتی تھی۔ تاہم میں اس طرح عقب سے حملے سے محفوظ تھا اور مجھے پوری گلی صاف دکھائی دے رہی تھی اور جونہی مویشی یا کتے بے چین ہوتے تو مجھے فوراً پتہ چل جاتا اور یہاں منحوس پسو بھی نہیں تھے۔
تاہم یہ رات سکون سے گزری اور تیندوا گاؤں سے دو یا تین میل قریب نہ آیا۔ اگلی صبح بنگلے میں پہنچا اور نہا دھو کر پھر سارا دن سو کر گزارا۔ ہر روز کئی آدمیوں کی جماعت پانچوں گاروں کی دیکھ بھال کرتی رہی مگر تیندوے نے انہیں چھوؤا تک نہیں۔
اس رات میں پھر چھت پر تھا۔ رات دو بجے کے قریب ہر طرف خاموشی تھی اور مجھے اونگھ آ گئی۔ اچانک جیسے کسی خواب سے بیدار ہوا ہوں، میں نے مویشیوں کو بے چینی سے حرکت کرتے سنا۔ پھر میرے نیچے سے ایک کتا بھونکا اور پھر چاروں مل کر رونے اور بھونکنے لگے۔
آہستگی سے آگے بڑھ کر میں نے گلی کو دونوں سمتوں میں دیکھا۔ ستاروں کی روشنی اتنی نہیں تھی کہ کچھ صاف دکھائی دیتا، مگر گلی محض اطراف سے ہلکی سی فرق دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔
اچانک مدھم سی آواز آئی۔ جیسے کوئی سانپ پھنکارا ہو۔ پھر دوبارہ وہی آواز سنائی دی۔ اس بار یہ آواز عین میرے نیچے سے آئی تھی۔ یہ سانپ کی آواز تھی یا پھر تیندوے کی، تیندوا جب اپنا اوپری ہونٹ سکوڑتا ہے تو ایسی آواز نکلتی ہے۔
میں نے نیچے گھورا مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔ پھر اچانک عجیب لمبوترا سا دھبہ دکھائی دیا جو اطراف سے ذرا سا ہلکا تھا۔ یہ آواز اسی سے آئی تھی۔ کتے پورے زور سے بھونک اور رو رہے تھے۔ مویشی بھی بے چین تھے۔
اب مجھے احساس ہوا کہ میں عین نیچے گولی نہیں چلا سکتا۔ مجھے کم از کم ایک فٹ آگے بڑھنا تھا تاکہ میرے کندھے اور سر چھت سے باہر نکلیں۔ جونہی میں نے حرکت کی تو احتیاط کے باوجود بھوسے اور چھت سے ہلکی سی آواز آئی۔
پھر اسی دھبے سے غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ تیندوے کو میرے موجودگی کا علم ہو چکا تھا۔اب کسی بھی لمحے تیندوا جست کر کے مجھ پر حملہ کر سکتا تھا۔
پیروں سے دھکیلتے ہوئے میں نے بقیہ فاصلہ طے کیا اور رائفل کا رخ نیچے کو کر کے ٹارچ جلائی۔ دو چمکتی ہوئی گولیاں دکھائی دیں جو جست لگانے کے لیے جھکا ہوا تھا۔ اتنے قریب سے ایک ہی گولی کافی تھی اور تیندوا وہیں گرا اور اس کی چمکدار آنکھیں سفید سے مدھم نارنجی ہوئیں، پھر ہلکی سبز اور پھر بے جان ہو گئیں اور جامنی مائل نیلے رنگ کی روشنی منعکس ہوتی رہی
اگلی صبح جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ یہ بوڑھی مادہ تھی جس کے بڑے دانت مسوڑھوں تک گھس گئے تھے۔ اس کی کھال بہت مدھم ہو چکی تھی اور دھبے بھی مدھم اور دھندلے ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے جسم پر کوئی زخم یا معذوری دکھائی نہیں دی۔ شاید بڑھاپے کی وہ سے وہ جانوروں کا شکار کرنے سے معذور ہو گئی تھی اور انسانوں سے پیٹ بھرنے لگی۔ ہر آدم خور کی طرح اس کی جتنی بھی دہشت رہی، مگر وقت کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچی۔ جدید آتشیں اسلحہ اور انسانی عقل جنگل کی مہارت اور بھوک سے کہیں طاقتور ہوتے ہیں۔

کینتھ اینڈرسن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک عمدہ نظم از سید عدید