اردو غزلیاتخورشید رضویشعر و شاعری

لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں

خورشید رضوی کی ایک اردو غزل

لب سے دل کا دل سے لب کا رابطہ کوئی نہیں

حسرتیں ہی حسرتیں ہیں مدعا کوئی نہیں

حرف غم ناپید ہے آنکھوں میں نم ناپید ہے

درد کا سیل رواں ہے راستا کوئی نہیں

اپنے من کا عکس ہے اپنی صدا کی بازگشت

دوست دشمن آشنا نا آشنا کوئی نہیں

سب کے سب اپنے گریبانوں میں ہیں ڈوبے ہوئے

گل سے گل تک رشتۂ موج صبا کوئی نہیں

حال زار ایسا کہ دیکھے سے ترس آنے لگے

سنگ دل اتنے کہ ہونٹوں پر دعا کوئی نہیں

کیا کوئی راکب نہیں ہم میں سمند وقت کا

نقش پا سب ہیں تو کیا زنجیر پا کوئی نہیں

میں تو آئینہ ہوں سب کی شکل کا آئینہ دار

بزم میں لیکن مجھے پہچانتا کوئی نہیں

دل کے ڈوبے سے مٹی دست شناور کی سکت

موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں

آنکھ میچو گے تو کانوں سے گزر آئے گا حسن

سیل کو دیوار و در سے واسطہ کوئی نہیں

عرش کی چاہت ہو یا پاتال کا شوق سفر

ابتدا کی دیر ہے پھر انتہا کوئی نہیں

کارواں خورشیدؔ جانے کس گپھا میں کھو گیا

روشنی کیسی کہ صحرا میں صدا کوئی نہیں

خورشید رضوی

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button