کرتے پھرتے ہیں غزالاں ترا چرچا صاحب
ہم بھی نکلے ہیں تجھے دیکھنے صحرا صاحب
یہ کچھ آثار ہیں اک خواب شدہ بستی کے
یہیں بہتا تھا وہ دل نام کا دریا صاحب
تھا یہی حال ہمارا بھی مگر جاگتے ہیں
کیا عجب خواب سنایا ہے دوبارہ صاحب
سہل مت جان کہ تجھ رخ پہ خدا ہوتے ہوئے
دل ہوا جاتا ہے گرد رہ دنیا صاحب
ہم نہ کہتے تھے کہ اس کو نظر انداز نہ کر
آئنہ ٹوٹ گیا دیکھ لیا نا صاحب
یوں ہی دن ڈوب رہا ہو تو خیال آتا ہے
یوں ہی دنیا سے گزر جاتے ہیں کیا کیا صاحب
آبشاروں کی جگہ دل میں کسی کے شب و روز
خاک اڑتی ہو تو وہ خاک لکھے گا صاحب
سچ کہا آپ کی دنیا میں ہمارا کیا کام
ہم تو بس یونہی چلے آئے تھے اچھا صاحب
تم تو کیا عشق بلا خیز کے آگے باہر
میر صاحب ہیں بڑی چیز نہ مرزا صاحب
ادریس بابر