خاموشی کے پردے تلے،
خوابوں کی زنجیر چلے۔
ہاتھوں میں ہیں سانجھے درد،
کیا قیامت، کیا ہے گرد۔
یہ لوہے کی لکیر ہے،
روشنیوں سے دور ہے،
راستوں کا کیسا سفر،
بند ہے یہ داستاں کا سفر۔
زنجیر کا وعدہ ٹوٹے گا،
آسمان سے دیا جلے گا۔
بند قیدیوں کے ہاتھ کہیں،
آزادی کے گیت سنائیں گے وہیں۔
شاکرہ نندنی