جدھر بھی دیکھیے اک راستہ بنا ہوا ہے
سفر ہمارے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے
میں سر بہ سجدہ سکوں میں نہیں سفر میں ہوں
جبیں پہ داغ نہیں آبلہ بنا ہوا ہے
میں کیا کروں مرا گوشہ نشین ہونا بھی
پڑوسیوں کے لیے واقعہ بنا ہوا ہے
مگر میں عشق میں پرہیز سے بندھا ہوا ہوں
ترا وجود تو خوش ذائقہ بنا ہوا ہے
بریدہ شاخیں ہیں یا شمع ہائے گل شدہ ہیں
خمیدہ پیڑ ہے یا مقبرہ بنا ہوا ہے
مرے گنہ در و دیوار سے جھلک رہے ہیں
مکان میرے لیے آئینہ بنا ہوا ہے
شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں
وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے
کسی دعا کے لیے ہاتھ اٹھے ہوئے شاہدؔ
کسی دیے کے لیے طاقچہ بنا ہوا ہے
شاہد ذکی