جی میں پہلے سی تب وتاب نہیں
جب سے آنکھوں میں ترے خواب نہیں
بستیاں دیکھ کے یوں لگتا ہے
کوئی اندیشہء سیلاب نہیں
شب کو سناٹے مجھے ڈستے ہیں
دن میں ہنگامہء احباب نہیں
موسم گل بھی خزاں جیسا ہے
شاخِ گل ایک بھی شاداب نہیں
میں جنوں خیز ہی کچھ ایسا ہوں
مجھ کو پابندیء آداب نہیں
خیر ہو شہر وفا کی مولا
شوخیء غازہء مہتاب نہیں
ہم نہ روئے ہیں نہ جاں تڑپی ہے
کشتئ دل ابھی غرقاب نہیں
دل پرندہ نہ پرندوں جیسا
اس لیے چشمہء بے آب نہیں
ہم سر انجمن یاراں ساحل
حسرت گریہ ہیں بیتاب نہیں
ساحل سلہری