جھڑ گیا جسم مداوات نہیں کرتا میں
کوزہ گر سے جو ملاقات نہیں کرتا میں
یہ مرے اشک مجھے باعثِ شادابی ہیں
تیری خاطر تو یہ برسات نہیں کرتا میں
ہے مسخر مرے آگے تری دنیا ورنہ
بے دھڑک یوں سفرِ ذات نہیں کرتا میں
جیسے ملتا ہے اسی طرح اسے ملتا ہوں
عشق میں اس کی مدارات نہیں کرتا میں
بارہا جاں سے گزرنا مرا دیکھے کوئی
لوگ کہتے ہیں کرامات نہیں کرتا میں
ملک عتیق