اردو غزلیاتسعود عثمانیشعر و شاعری

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

سعود عثمانی کی اردو غزل

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے

پیچ ہے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے

لوگ کہتے ہیں کہ تو دور افق پار گیا !

کیا کہوں اے مرے دل میں اتر جانے والے

جانے والے ترے مرقد پہ کھڑا سوچتا ہوں

خواب ہی ہو گئے تعبیر بتانے والے

ہر نیا زخم کسی اور کے سینے کا سعود

چھیڑ جاتا ہے مرے زخم پرانے والے

 

سعود عثمانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button