کھدر کا کفن
تیس برس کی بات ہے جب میں بالکل بچّہ تھا۔ ہمارے پڑوس میں ایک غریب بوڑھی رہتی تھی۔ اس کا نام تو حکیمن تھا مگر لوگ اُسے حکّو کہہ کر پُکارتے تھے۔ اس وقت شاید ساٹھ برس کی عمر ہو گی، جوانی میں ہی ودھوا ہو گئی تھی اور عمر بھر اپنے ہاتھ سے کام کر کے اپنے بچوں کو پالا تھا۔ بوڑھی ہو کر بھی وہ سورج نکلنے سے پہلے اٹھتی تھی۔ گرمی ہو یا جاڑا۔ ابھی ہم اپنے اپنے لحافوں میں دبکے پڑے ہوتے کہ اس کے گھر سے چکّی کی آواز آنی شروع ہو جاتی۔ دن بھر جھاڑو دیتی، چرخہ کاتتی، کپڑا بنتی، کھانا پکاتی، اپنے لڑکے لڑکیوں، پوتے نواسوں کے کپڑے دھوتی۔ اس کا گھر بہت ہی چھوٹا تھا۔ ہمارے اتنے بڑے آنگن والے گھر کے مقابلے میں وہ جوتے کے ڈبّے جیسا لگتا تھا۔ دو کوٹھریاں، ایک پتلا سا دالان اور نام کے واسطے دو تین گز لمبا چوڑا صحن مگر اتنا صاف ستھرا اور ایسا لِپا پُتا رکھتی تھی کہ سارے محلے میں مشہور تھا کہ حکّو کے گھر کے فرش پر کھیلیں بکھیر کر کھاسکتے ہیں۔ صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک وہ کام کرتی تھی پھر بھی جب کبھی حکّو ہمارے گھر آتی ہم اسے ہشّاش ہی پاتے۔ بڑی ہنس مکھ تھی وہ۔ مجھے اس کی صورت اب تک یاد ہے۔ گہرا سانولا رنگ جس پر اُس کے سفید بگلا سے بال خوب کھلتے تھے۔ اس کی کاٹھی بڑی مضبوط تھی۔ اس کی کمر مرتے دم تک نہیں جھکی۔ آخر دنوں میں کئی دانت ٹوٹ گئے تھے جس سے بولنے میں پوپلے پن کا انداز آ گیا تھا۔ بڑے مزے کی باتیں کرتی تھی اور جب ہم بچّے اسے گھیر لیتے تو کبھی تین شہزادوں، کبھی سات شہزادوں، کبھی جِنوں اور پریوں کی کہانی سناتی………… وہ پردہ نہیں کرتی تھی۔ اپنا سارا کاروبار خود چلاتی تھی۔ حکّو پڑھی لکھی بالکل نہیں تھی، نہ اُس نے عورتوں مردوں کی برابری کا اصول سنا تھا، نہ جمہوریت نہ اشتراکیت کا، پھر بھی حکّو نہ کسی مرد سے ڈرتی تھی نہ کسی امیر، رئیس، افسر اور داروغہ سے ڈرتی تھی۔ حکّو نے عمر بھر محنت کر کے اپنے بال بچّوں کے لیے بہت پیسے جمع کیے تھے۔ بے چاری نے بینک کا تو نام نہ سنا تھا۔ اس کی ساری پونجی (جو شاید سو دو سو روپے ہو، ) چاندی کے گہنوں کی شکل میں اس کے کانوں، گلے اور ہاتھوں میں پڑی ہوئی تھی۔ چاندی کی بالیوں سے اُس کے جھکے ہوئے کان مجھے اب تک یاد ہیں۔ ان گہنوں کو وہ جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی تھی۔ کیوں کہ یہ ہی اُس کے بڑھاپے کا سہارا تھے۔ مگر ایک دن سب محلے والوں نے دیکھا نہ حکّو کے کان میں بالیاں ہیں، نہ اُس کے گلے میں ہنسلی، نہ اُس کے ہاتھوں میں کڑے اور چوڑیاں پھر بھی اُس کے چہرے پر وہی پرانی مسکراہٹ تھی اور کمر میں نام کو بھی خم نہیں۔ ہوا یہ کہ ان دنوں مہاتما گاندھی، علی برادران کے ساتھ پانی پت آئے۔ ہمارے نانا کے مکان میں انھوں نے تقریریں کیں۔
ترکِ موالات اور سوراج کے بارے میں حکو بھی ایک کونے میں بیٹھی ہوئی سنتی رہی۔ بعد میں چندہ جمع کیا تو اس نے اپنا سارا زیور اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیا اور اس کی دیکھا دیکھی اور عورتوں نے بھی اپنے اپنے زیور اتار کر چندے میں دے دیے۔ اس دن سے حکّو ’’خلافتی‘‘ ہو گئی۔ ہمارے ہاں آ کر نانا ابّا سے خبریں سنا کرتی اور اکثر پوچھتی…………. یہ انگریزوں کا راج کب ختم ہو گا؟‘‘ خلافت یا کانگریس کے جلسے ہوتے تو ان میں بڑے چاؤ سے جاتی اور اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سیاسی تحریک کو سمجھنے کی کوشش کرتی……… مگر عمر بھر کی محنت سے اس کا جسم کھوکھلا ہو چکا تھا۔
پہلے آنکھوں نے جواب دیا، پھر ہاتھ پاؤں نے حکّو نے گھر سے نکلنا بند کر دیا مگر چرخہ کاتنا نہ چھوڑا۔ عمر بھر کی مشق کے سہارے آنکھوں بغیر بھی کپڑا بُن لیتی۔ بیٹوں، پوتوں نے منع کیا تو اس نے کہا کہ وہ یہ کھدّر اپنے کفن کے لیے بُن رہی ہے۔ پھر حکّو مر گئی۔ اس کی آخری وصیت یہ تھی کہ ’’مجھے میرے بنے ہوئے کھدر کا کفن دینا۔ اگر انگریزی کپڑے کا دیا تو میری روح کو کبھی چین نصیب نہ ہو گا۔‘‘ ان دنوں کفن لٹھّے کے دیے جاتے تھے کھدّر کا پہلا کفن حکو کو ہی ملا۔ اس کا جنازہ اٹھا تو اس کے چند رشتے دار اور دو تین پڑوسی تھے۔ نہ جلوس نہ پھول نہ جھنڈے بس ایک کھدّر کا کفن۔
٭٭٭
خواجہ احمد عباس