سوشل میڈیا ہمارے دماغوں پر اتنا حاوی ہےکہ اس کے بغیر گزارا اب ناممکن نظر آتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک سروے کے مطابق بتایا گیا کہ پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد انیس کروڑ کے قریب ہے ۔ جس ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہو اور وہاں موبائل صارفین کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہو۔ وہاں اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے دیوانے بن چکے ہیں ۔ آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ اگر آپ کوئی ویڈیو تصویر یا دوسری کوئی پروڈکٹ دیکھتے ہیں ۔ تو بالکل آپ کی پسند کے مطابق آپ کو موبائل خود کار طریقے سے ویسی ہی چیزیں دکھاتا ہے ۔ یعنی موبائل میں ایسا سوفٹ ویئر موجود ہے۔ جو آپ کے ذہن کے مطابق آپ کو یہ بتا سکتا ہے کہ آپ کو کون سی چیز پسند ہے اور کون سی ناپسند
۔ سوشل میڈیا کی مشہور ایپ۔ واٹس ایپ۔ فیس بک۔ ٹویٹر ۔ انسٹاگرام ۔اور ٹک ٹاک ہیں ۔ پاکستان میں فیس بک چلانے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔اس کی وجہ آپ فیس بک پر آسانی سے اپنی فوٹو اور اسٹیٹس لگا سکتے ہیں ۔ ٹویٹر کو زیادہ تر ذہین اور پڑھے لکھے لوگ استعمال کرتے ہیں ۔یہاں پر آپ کو مشہور کھلاڑیوں سیاستدانوں۔ ریٹائرڈ جنرل۔ کرنل اور بڑے بڑے لوگوں کی آئی ڈی بھی ملیں گی۔ اور اب تو ٹوئٹر نے اسپیس پروگرام کے ذریعے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے۔ جس کو اگر ہم صحیح استعمال میں لائیں تو ہمارے لئے انفارمیشن اور دوسروں تک اپنی آواز پہنچا نے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ انسٹا گرام پر نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ واٹس ایپ کاروباری اور جلد رابطے کے لحاظ سے بہترین ایپ ہے ۔ ٹک ٹاک پر آپ کو رنگ برنگے لوگ نظر آئیں گے۔ یہ آپ کے لیے ٹیلنٹ دکھانے کی بہترین ایپ ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پر ہم نے ایسی بے حیائی والی ویڈیو شیئر کی ہے جو بطور مسلمان بڑی شرمندگی کی بات ہے ۔ پاکستان میں کتنی بار ٹک ٹاک پر پابندی لگ چکی ہے
۔ بہرحال سوشل میڈیا کو اگر ہم صحیح استعمال کریں۔ تو اس کے ذریعے ہم بہت سی معلومات دوسروں تک بھی پہنچا سکتے ہیں اور خود بھی حاصل کر سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا ہماری پوسٹ کی ہوئی کسی بھی چیز کو منٹوں میں دوسروں تک پہنچا دیتا ہے ۔ سوشل سائٹ پر صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے پھر یہ خود بخود ایک سے دوسرے اور تیسرے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اگر آپ لکھتے ہیں تو آپ یہاں پر اپنی کوئی بھی تحریر لکھ کر پوسٹ کر سکتے ہیں ۔اگر آپ کے پاس کوئی ٹیلنٹ ہے تو آپ اس کی ویڈیو بنا کر شیئر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی چیز بیچنا چاہتے ہیں تو بھی آپ سوشل میڈیا کا استعمال کر سکتے ہیں ۔ اسلامی لحاظ سے دیکھا جاۓ تو بہت سے علما ء اکرم بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دین کی محنت کر رہے ہیں ۔ اور بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو برائی سے روک کر اچھائی کی طرف لائیں ۔
سوشل میڈیا پر جہاں بہت سے فائدے ہیں وہاں بہت سے نقصانات بھی ہیں ۔ یہاں پر نازیبا ویڈیو کا ایسا مواد موجود ہے ۔یعنی آپ ایک فنگر کے ذریعے کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے کی سائیٹ بلاک کروائی ہیں ۔ مگر پھر بھی یہاں پر ایسی ایسی ویڈیو پڑی ہیں جس سے ہماری آنے والی نسلیں تباہ ہورہی ہیں ۔ والدین اگر اپنے چھوٹے بچوں کو موبائل دیتے ہیں تو ان کی نگرانی بھی کریں ۔ کیونکہ موبائل میں ایک آپشن ہسٹری کا بھی ہوتا ہے یہاں پر آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون سی چیز کب سرچ کی گئی ہے ۔ کرونا کے دونوں میں تو ویسے بھی آن لائن کلاس شروع تھیں ۔ اور کئی والدین نے اپنے بچوں کو موبائل لے کر دیے تھے ۔ ان والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی بھی کریں ۔کہ وہ ان موبائل کا ٹھیک استعمال بھی کر رہے ہیں یا غلط ۔ کیوں کہ اگر موبائل پر انٹرنیٹ چل رہا ہے تو یہ چھوٹی عمر کے بچوں کے لیے نہایت ہی خطرناک ہے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی یوٹیوب ان کو وہ چیزیں دکھا دیتا ہے جن چیزوں سے ہم ان کو بچاتے ہیں۔ اور یہ بڑی فکر کی بات ہے کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں ۔ موبائل کا زیادہ استعمال بھی نہایت خطرناک ہے ۔ اس کی وجہ سے ڈپریشن جیسی بیماریاں بڑھ رہی ہیں ۔ نیند کی کمی کی وجہ سے ہم ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں ۔ اور اس سے گھروں میں لڑائی عام ہے ۔بہرحال ہم چاہتے ہوئے بھی موبائل سے چھٹکارا تو نہیں پا سکتے ۔ مگر تھوڑی سی کوشش سے اس کا صحیح استعمال کر کے اپنی زندگی اور اپنے رشتوں میں بہتری ضرور لا سکتے ہیں ۔
منیر انجم