اے کرمک شب کور !
ذرا دیکھ تو وہ زلف سیاہ!
برف زاروں میں زنگیوں کی سپاہ!
رخ روشن کی حدتوں کی گواہ !
شعلہ و برق کی سسکی، انگاروں کی آہ!
لذت چشیدہ جام مئے ناب ذرا
دیکھ وہ لب کہ ہیں لالہ و گلفام کی چاہ۔!
کس کو ثواب کی حسرت بھلا رہ جائے؟
چشم حیرت میں ہیں خوابیدہ وہ دلچسپ گناہ!
رعب رعنائی سے گنگ بیٹھا ہوں کیسے بولوں!
آ کسی شب کہ تیرے حسن کا عقدہ کھولوں! !
تلخ ہیں جان جہاں گردوں کے الٹ پھیر بہت !!!
تو مجھے مل کہ ذرا دیر کو میں بھی سو لوں!
مریم مجید