اس خاک کے پیکر کو انسان کا رتبہ دو
کردار کے منبر سے احساس کا خطبہ دو
یہ دور حمیّت کے معیار سے عاری ہے
تلوار کو غیرت کی للکارکا جذبہ دو
جس راز پہ چل کر میں لاہوت میں جا پہنچوں
تقدیر کی چوکھٹ سے تدبیر وہ خفیہ دو
ابلیس کے نرغے میں جو نفس مقیّد ہے
اس نفس کے مارے کو اِعراض کا رستہ دو
تعمیر ہے گھر اپنا دعویٰ کے ستونوں پر
ان کھوکھلے نعروں کو کردار بھی عمدہ دو
اویس خالد