کہیں کچھ کم نہیں ہے ، تم نہیں ہو
اگرچہ سب حسیں ہے ، تم نہیں ہو
حصارِ رنگ و بُو ہے چار جانب
کوئی تو بالیقیں ہے ، تم نہیں ہو
میں ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھا ہوا ہوں
مگر جلتی زمین ہے ، تم نہیں ہو
دئیے بھی جل رہے ہیں طاقچوں میں
یہ سورج بھی وہیں ہے ، تم نہیں ہو
گماں ہے بے یقینی اور یقیں ہے
کہیں کچھ تو کہیں ہے ،تم نہیں ہو
یہ دل کا رقص یونہی تو نہیں ہے
کوئی دل کے قریں ہے ، تم نہیں ہو
مجھے ایسا گماں ہوتا ہے شاہد
نہیں ایسا نہیں ہے ، تم نہیں ہو
افتخار شاہد