یہ خواب جو ہم سفر ہیں میرے
قاتل ہیں کہ چارہ گر ہیں میرے
وہ سامنے آسماں ہے لیکن
بھیگے ہوئے بال و پر ہیں میرے
میں شمع کہاں کہاں جلاؤں
بستی کے تمام گھر ہیں میرے
میرے لئے کتنی دیر روئیں
یہ لوگ جو چارہ گر ہیں میرے
یہ شام کہاں سے آ رہی ہے
مہکے ہوئے بام و در ہیں میرے
پھیلا تو گروں گا آسماں پر
پاؤں ایسی زمین پر ہیں میرے
دریا نے بہت دیا ہے قیصرؔ
کشتی نہ سہی بھنور ہیں میرے
قیصر الجعفری