تم کب ان بانہوں کے ہو
جن بانہوں کے حلقے تم پر تنگ ہوئے
ہرے بھرے سارے موسم بے رنگ ہوئے
جن بانہوں کی گردش میں مہتاب نہیں ہے
جذبوں کی محراب نہیں ہے
تم کب ان بانہوں کے ہو!
جن بانہوں کے حبس زدہ پنجرے کو تم خود توڑ چکے ہو
اور کسی خوشبو سے ناتا جوڑ چکے ہو
تم کب اُن آنکھوں کے ہو!
جن آنکھوں کی دھوپ میں تم جلتے رہتے ہو
ننگے سر، ننگے پیر چلتے رہتے ہو
جن آنکھوں کی رہداری میں خواب نہیں ہیں
مرجانے اور جینے کے آداب نہیں ہیں
عمر ہوئی جن کی گلیوں میں
آنا جانا چھوڑ چکے ہو
خوف بھری تاریکی سے منہ موڑ چکے ہو
تم کب اُس کمرے کے ہو
جس کمرے کی کھڑکی میں، پتھر کے منظر جُڑے ہوئے ہیں
اور اس کے دروازے پر شیشے کے پردے پڑے ہوئے ہیں
جس کے ٹھنڈے فرش پہ یاد کا ساون جلتا ہے
جس پر آتے جاتے اکثر پاؤں پھسلتا ہے
تم کب اُس بستر کے ہو
جس کی شکنوں میں نیندیں بے دخل ہوئی ہیں
سپنے ٹوٹ گئے ہیں، سوچیں قتل ہوئی ہیں
جس کی سرد تہوں میں رکھی
برف سے تم جلتے ماتھے کو پھوڑ رہے ہو
روح کے گہرے سناٹے میں
ٹوٹی پھوٹی آوازوں کو
کرچی کرچی جوڑ رہے ہو
تم کب اُن لوگوں کے ہو
جن کے محل،منارے، گلیاں اور محلے راس نہ آئے
جو کہنے کو ساتھ بہت تھے
لیکن دل کے پاس نہ آئے
جو سونے اور چاندی میں مٹی دفنادیں
جذبوں کو بے حس دیواروں میں چُنوادیں
تم کب اُن لوگوں کے ہو
بچی کبھی سانسوں کو سمیٹو
اُن پر جیون ڈور لپیٹو
بے خوبی کا اِسم پڑھو
اور اپنی ذات کے صحرا سے باہر آ جاؤ
جتنی جلدی ممکن ہو
تم واپس اپنے گھر آ جاؤ
سلیم کوثر