- Advertisement -

پہاڑی کھیت میں!

ایک افسانہ از اختر شیرانی

پہاڑی کھیت میں!

ڈوبتے ہوئے سورج کی زردی مائل سُرخی رکتی جھجکتی آسمان کے دامن سے جُدا ہوئی، کھیتوں اور جنگلوں کی کھُلی فضا پر روشنی بتدریج تاریکی میں گم ہوتی گئی۔۔۔۔ گاؤں میں اندھیرا پھیل گیا۔ ساتھ ہی کسانوں کے گھروں کی چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں سے دھندلی دھندلی روشنی کی کرنیں سامنے کی طرف بڑھنے لگیں۔
شام خاموش اور پُر سکوت تھی مویشی کے گلّے جنگلوں سے واپس ہو گئے تھے، کسان اپنا اپنا کام ختم کر کے لوٹ چکے تھے، اور اپنی اپنی جھونپڑیوں کے سامنے پتھروں پرکھانا کھا کر چپ چاپ لیٹ رہے تھے۔ نہ گیتوں کی آواز آتی تھی۔ نہ بچوّں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔
خدائی اور خدائی کی ہر چیز گہری نیند میں تھی، کپتان آئی ونچ، بھی اپنے گھرکی کھلی کھڑکی کے سامنے بیٹھا ہوا نیند کے مزے لے رہا تھا۔
اُس کا گھر اور کھیت دونوں ایک پہاڑی پر واقع تھے۔۔۔۔۔۔ کیکر اور بکائن کے چھوٹے چھوٹے پودوں کی قطاریں جن کے دامن میں بچھو بُوٹی اور دوسری خود رَو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔ وادی کے سامنے نشیبی زمین کے ساتھ ساتھ۔ نیچے کی طرف جھکی نظر آتی تھیں، کھڑکیوں میں سے نگاہ، شاخوں سے گزر کر دور دور تک کی خبر لا سکتی تھی۔
شفق کی چھاؤں میں ڈوبے ہوئے کھیت اور میدان خاموش تھے۔ ہوا میں خشکی اور گرمی کا اثر تھا۔ آسمان پر ستارے شرمیلے اور پُر اسرار انداز سے تھرتھرا رہے تھے، جھاڑیوں کے درمیان کھڑکیوں کے نیچے چند ٹِڈّے آہستہ آہستہ اپنا صحرائی راگ الاپ رہے تھے، نشیب کی طرف سے کسی بٹیر کی موزوں آواز "پٹیلو پٹیلو "سنائی دے رہی تھی۔
کپتان آئی ونچ حسبِ معمول تنہا تھا۔
شاید اُس کے نوشتۂ تقدیر ہی میں یہ لکھا تھا کہ وہ اپنی تمام زندگی تنہا گزارے گا۔ اُس کے ماں باپ جو بہت غریب لوگ تھے، اور شہزادۂ نوگیسکی، کے ہاں زندگی کے دن پورے کر رہے تھے، اُسے ایک سال کی عمر میں چھوڑ کر مر گئے تھے۔ اُس کا بچپن اپنی ایک سودائی اور دوشیزہ پھوپھی کے ہاں اور جوانی کا زمانہ سپاہی زادوں کے مدرسے میں گزارا تھا۔ عالمِ شباب میں اُس نے اپنے ہاں کے رومانی شاعروں ڈیلوگ اور کولٹسو کی تقلید میں بہت سی عاشقانہ نظمیں لکھی تھیں۔ جو سب کی سب کسی "سلمیٰ "کے تذکروں سے لبریز تھیں، اُس کی "سلمیٰ "اینا نامی ایک لڑکی تھی۔ جس کا باپ مقامی رجسٹرار کے دفتر میں کام کرتا تھا۔ افسوس کہ کپتان کی سلمیٰ کو اُس سے محبت نہ تھی۔
لوگ کہتے تھے کہ وہ ایک شریف نوجوان ہے مگر اِس کا کیا علاج کہ اُس کی وضع و قطع میں کوئی قابلِ توجّہ بات نہ تھی، وہ دُبلا، پتلا اور کسی قدر لانبا تھا اور اِسی لیے اُس کے دوست مزاجی انداز میں اُس کو اکثر و بیشتر "شمشاد قامت "کہا کرتے تھے۔
شہزادے کے رُسوخ کی وجہ سے، جو بجا طور پر کپتان کے باپ کی حیثیت سے یاد کیا جاتا تھا، اُسے فوج میں کپتان کا عہدہ مل گیا تھا، لیکن پھوپھی کے انتقال پر جب ورثے میں کافی روپیہ ہات آیا تو اُس نے فوجی ملازمت سے استعفا دے دیا، اب وہ اپنے آپ کوکسی ناول کے ہیرو سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ اُس کے بال رُوس کے تازہ ترین فیشن یعنی پولینڈ کے انداز کے مطابق ہوتے تھے، مگر۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں لاحاصل اور بے سُود ثابت ہوئیں۔
کپتان کی "سلمیٰ "اپنے ایک دوست کے ہاں چند روز کے لیے مہمان گئی تھی۔ خوبیِ تقدیر کہ اُس نے وہیں شادی کر لی، اور بد نصیب کپتان کی رومانی شاعری اُس کی بیاض میں دفن ہو کر رہ گئی، جہاں وہ اُس کی موت تک مدفون رہی۔ غریب نے کاشتکاری کا کام شروع کر دیا اور ساتھ ہی مقامی حکومت کے دفتر میں ملازمت کی کوشش کی مگر قسمت نے یہاں بھی ساتھ نہ دیا۔۔۔۔۔۔۔ افسرِ اعلیٰ نے ایک مرتبہ لوکل جنٹلمین کلب میں ناشتہ کرتے ہوئے کہا تھا، "کپتان آئی ونچ ایک شریف انسان ہے مگر خواب و خیال کا پرستار، ایسا شخص جو اپنے زمانے کے بعد تک باقی ہو۔ ”
کپتان آئی ونچ نے پاس پڑوس کے خوردہ فروشوں سے دوستی کی۔ ڈوجام وکیل سے غیر معمولی مراسم بڑھنے کی وجہ سے وہ اُس کا ہم نوالہ وہم پیالہ بن گیا۔ دِن گزر گئے، مہینے برسوں سے بدل گئے اور کپتان ہمیشہ کے لیے ایک کسان بن کر رہ گیا۔ وہ ایک دوہری چھاتی کا لمبا سا کُرتا پہنا کرتا تھا، جو اُس کے گھٹنوں تک پہنچتا تھا۔ اُس کی مونچھیں سیاہ اور لانبی تھیں۔ لیکن اب وہ یکسر فراموش کر چکا تھا۔ کہ اُس کی شکل و صورت کیسی معلوم ہوتی ہے ؟ حقیقتاً اُسے بالکل خبر نہ تھی کہ اُس کا پتلا اور جھرّیوں والا چہرہ اپنے شفقت آلود اثر کے ساتھ بہت دل کش نظر آتا تھا۔ آج وہ اداس تھا، صبح سویرے جب اُس کی خادمہ پیس اگریضیا اندر آئی تھی، تو اُس نے اثنائے گفتگو میں یہ بھی کہا تھا:۔
جناب! آپ اینا گریگوریون کو تو جانتے ہوں گے ؟
"ہاں "کپتان آئی ونچ نے جواب دیا۔
"بیچاری مر گئی، اِس اتوار کو اُسے دفنا دیا گیا۔ ”
تمام دن کپتان آئی ونچ کے ہونٹوں پر ایک مہم اور بے معنی پھیکی پھیکی مسکراہٹ چھائی رہی۔ شام کے وقت۔۔۔۔۔۔۔ اور شام خدا جانے کیوں خاموش اور افسردہ تھی۔۔۔۔۔۔ نہ تو اُس نے کھانا کھایا اور نہ وقت پر سونے گیا۔ جیسا کہ اُس کا معمول تھا۔ بلکہ اُس نے سیاہ رنگ کے سخت تمباکو کا ایک موٹا سا سگریٹ تیار کیا اور کھڑکی میں ٹانگیں پھیلا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔
وہ کہیں باہر جانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ اُس شخص کی طرح جو سکون کے ساتھ سوچنے کا عادی ہو۔ اُس نے اپنے دل سے پوچھا۔ "کہاں؟ ‘‘۔۔۔۔۔ کیا بٹیروں کا شکار کرنے ؟۔۔۔۔۔۔ مگر وقت گزر گیا تھا، اور اُسے کوئی ساتھی نہیں مل سکتا تھا۔
وہ باہر جائے یا نہ جائے ؟۔۔۔۔۔۔۔ اُسے بٹیروں کے شکار سے مطلقاً رغبت نہ تھی۔ اُس نے آہ بھری اور اپنی ٹھوڑی پر جس کے بال دو چار دن سے صاف نہیں کیے گئے تھے، ہات پھیرا۔
"بیشک "اُس نے سوچا۔ "انسانی زندگی مختصر اور مجبور ہے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی کل کی بات ہے کہ وہ ایک بّچہ تھا۔۔۔۔۔۔ بّچے سے جوان ہوا، پھر وہ فوجی مدرسہ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک دن آیا کہ اُس کی پھوپھی۔۔۔۔۔۔ اُس کی پھوپھی!۔۔۔۔۔۔ وہ کیسی عجیب تھی، وہ اُسے اچھی طرح یاد تھی۔۔۔۔۔۔ ایک دبلی پتلی بوڑھی دوشیزہ۔۔۔۔۔۔۔ میلے کچیلے خشک اور سیاہ بالوں، اور خالی خالی آنکھوں والی!۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ کہتے تھے کہ اُس کے سودائی ہونے کا سبب یہ تھا کہ اُسے محبت میں ناکامی نصیب ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اُسے یاد تھا کہ کس طرح اُس نے بورڈنگ اسکول کی ایک پرانی رسم کے مطابق فرنچ قِصے کہانیاں حفظ کر لی تھیں اور وہ اُنھیں احمقانہ رنگ، متین چہرہ بنا کر اور آنکھوں کو اوپر کی طرف گھما گھما کر دہرایا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ پھر اُسے وہ گیت یاد آیا جس کا عنوان تھا "نغمۂ فراق "اُس کی زبانی یہ گیت کتنا عجیب معلوم ہوتا تھا، بوڑھی کنواری اُسے کیسی از خود رفتگی کے عالم میں سناتی تھی۔
"آہ! وہ "نغمۂ فراق ‘‘۔۔۔۔۔۔۔ "وہ "بھی تو اُسے پیانو پر بجایا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ! آسمان پر ستارے پر اسرار انداز میں چمک رہے تھے، ٹِڈے گنگنا رہے تھے، اُن کی دھیمی آواز شام کی خاموش فضا کو لوری دے کر تھرتھرا دیتی تھی،۔۔۔۔۔۔ کمرے میں ایک پرانا پیانو پڑا تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں۔ اگر "وہ "اِس وقت اندر آ جائے۔۔۔۔۔۔۔ ایک خواب کی طرح۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی روح نظروں سے چھپ کر اندر آ جائے اور پیانو کو بجانا شروع کر دے ! اِس کے پرانے پردوں کو چھیڑ دے۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ دونوں مل کر گھر سے باہر جائیں! گیہوں کے کھیتوں میں سے جو پگ ڈنڈی گزرتی ہے۔۔۔۔۔۔ اُس پر سیدھے چلے جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔ دُور بہت دُور۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں، جہاں۔۔۔۔۔۔۔ مغربی آسمان میں روشنی چمکتی نظر آتی ہے۔
کپتان آئی ونچ نے اپنے جذبات کو مغلوب کیا اور مسکرا دیا۔
"تصّور نے اب تک میرا پیچھا نہیں چھوڑا ‘‘۔ اُس نے بلند آواز سے کہا۔ ٹِڈے شام کی خاموش ہوا میں گنگنا رہے تھے، باغ کی طرف سے شبنم سے لدے ہوئے صبح کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی، یہ خوشبو بھی اُس کو ایک شام کی یاد دلا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ جب وہ شہر سے دیر میں گھر لوٹا تھا۔ اُس وقت "اُس "کے تصوّر میں کھویا ہونا اور خوشی کی امیدوں کو تازہ کرنا، اُسے کس قدر خوش آئند محسوس ہوتا تھا۔
جب وہ کھیت کی طرف چلا تو گاؤں کی کسی کھڑکی میں سے بھی روشنی کی جھلک نظر نہ آتی تھی۔ حدِّ نظر تک پھیلے ہوئے تاروں بھرے آسمان کے نیچے ہر ایک شے خوابیدہ تھی۔ اپریل کی راتیں اندھیری اور گرم ہوتی ہیں۔ باغ سے شاہ دانے کی کلیوں کی ہلکی ہلکی بھینی بھینی مہکار آ رہی تھی۔ تالابوں میں مینڈک نیند کی حالت میں ٹر ٹر کر رہے تھے۔
ایسی دھیمی موسیقی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اُس وقت سنائی دیتی ہے۔ جب بہار کی سحر طلوع کے قریب ہو۔
باغ والے مکان میں پیال پر پڑ کر سو رہنے سے پہلے وہ دیر تک پریشان خیالوں میں کھویا رہا۔ گھنٹوں اُس نے اُن خیالات کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی جن کا سر رشتہ دور دست خوابوں کے سرابی بادلوں میں کھو گیا تھا۔ اتنے میں کسی فراموش شدہ چشمے سے بگلے کی چیخ سنائی دی، یہ کس قدر پر اسرار معلوم ہوتی تھی، باغ کی تاریکیاں بھی پُر اسرار نظر آنے لگیں۔
طلوعِ سحر سے پہلے باغ کی رسیلی فضا میں سانس لیتے ہوئے اُس نے آنکھیں کھولیں۔ اور مکان کے ادھ کھلے دروازے میں سے صبح کے جھلملاتے ہوئے ستاروں نے اُس کی طرف دیکھا۔
کپتان آئی ونچ اُٹھ کھڑا ہوا اور مکان کے اندر ٹہلنے لگا۔ اُس کے قدموں کی چاپ کمروں میں پھیل کر اور اُن کی جھکی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی چھتوں سے ٹکرا کر صدائے بازگشت پیدا کر رہی تھی۔
"یہ چھوٹا سا مکان اسّی برس پرانا ہے۔ "کپتان آئی ونچ کو خیال آیا ‘‘۔ اب کے موسمِ خِزاں میں بڑھئی کو بلانا پڑے گا ورنہ سردیوں میں یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا ‘‘۔ ٹہلتے ہوئے اُسے اپنی بد ہیبتی اور بد زیبی کا احساس ہوا، لانبا اور دُبلا پتلا قدرے کمر خمیدہ، اپنے پرانے بڑے بڑے بوٹ اور کھُلے ہوئے بٹنوں کا کوٹ پہنے جس کے اندر سے چھپی ہوئی چھینٹ کی قمیص نظر آ رہی تھی۔ وہ کمرے میں بے ارادہ گھوم رہا تھا، اور ساتھ ساتھ بھویں سکیڑتے ہوئے اور سرہلاتے ہوئے "نغمۂ فراق "گا رہا تھا۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی توجّہ اپنے قدموں کی طرف ہے۔ وہ اپنے متعلق سوچنے لگا، اُس نے کمرے میں اِدھر سے اُدھر ٹہلتے ہوئے اپنے آپ کو ایک اجنبی شخص کے طور پر، خود اپنی تنقیدی نظر کے سامنے پیش کیا، اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سامنے ایک افسردہ شخصیت ہے، جس کا دل غم زدہ ہے اُس نے کارتوس اٹھائے اور گھر سے باہر نکل گیا۔
باہر زیادہ روشنی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفتاب کی روشنی جو گاؤں کے پیچھے غروب ہو رہا تھا۔ اب بھی اُس کے مکان کے صحن میں چمک رہی تھی۔
"میکائیل "! ! ! کپتان آئی ونچ نے صاف آواز میں بوڑھے چروا ہے کو آواز دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ میکائیل اپنا کرتا بدلنے کے لیے گھر چلا گیا تھا۔
"ہائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملی ٹریسا کاربیلونا بھی غائب ہو گئی۔ "کپتان نے باورچن کو تلاش کرتے ہوئے کہا۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ دونوں کہاں چلے گئے، کپتان صحن کو طے کر کے گایوں کے باڑے کی طرف آیا کہ شاید مِٹکا، گایوں کے لیے گھاس کاٹنے میں مصروف ہو، وہ اب تک کسی اور چیز کے خیال میں محو تھا۔ اُسی محویت کے قدم اُٹھاتے ہوئے باڑے کے پاس آ کھڑا ہوا۔ "مٹِکا! ! ! ”اُس نے آواز دی۔ مگر یہاں بھی صدائے بر نہ خاست۔ فقط کواڑ کی آڑ سے گائے کے زور سے سانس لینے اور مرغیوں کے ڈربے سے پر پھٹ پھٹانے کی آوازیں سنائی دیں۔
"مجھے اُن سے کیا کام ہے ؟ "کپتان آئی ونچ نے سوچا اور آہستہ آہستہ بگھی خانے سے اُس جگہ پہنچا جہاں ڈھلوان زمین سے گیہوں کے کھیت شروع ہوتے تھے۔ لڑکھڑاتے اور لٹ پٹاتے قدموں کے ساتھ اُس نے بچھو گھاس کا ایک اندھیرا تختہ عبور کیا اور پہاڑی پر آ بیٹھا، زرد فام شفق کی روشنی میں نشیب کی طرف جھکا ہوا کھلا میدان دور تک نظر آتا تھا۔ پہاڑی کے اوپر سے چاروں طرف پھیلے ہوئے جنگلو ں کے نظارے جو ہلکے ہلکے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اُسے اچھی طرح دکھائی دیتے تھے۔
"میں اِس پہاڑی پر بیٹھا ہوا ایک اُلّو کی طرح معلوم ہوتا ہوں۔ "کپتان آئی ونچ نے خیال کیا۔ "لوگ کہیں گے اِس بڈھے کو کوئی کام نہیں!۔۔۔۔۔ ہاں سچ توہے، میں بوڑھا ہوں ‘‘۔ اُس نے سوچتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
"کیا اینا گریگوریون مر نہیں گئی؟۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ کبھی تھی ہی نہیں، آخر وہ سب کچھ کیا ہوا؟ کہاں گیا؟ یہ تمام گزرا ہوا زمانہ! وہ گزرے ہوئے زمانے کے لوگ! ”
دیر تک وہ دور کے میدانوں اور کھیتوں کو دیکھتا رہا، دیر تک وہ شام کی خاموشی میں کھویا رہا۔ "یہ کیونکر ہو سکتا ہے ‘‘۔ اُس نے بلند آواز سے کہا۔ "ہر ایک چیز ویسی ہی ہو جائے گی۔ جیسی پہلے تھی، آفتاب طوع ہو گا، کسان اپنے ہل لیے ہوئے کھیتوں کی طرف جائیں گے، مگر میں اُن کونہ دیکھوں گا، نہ صرف یہ کہ دیکھوں گا نہیں۔ بلکہ یہاں سرے سے موجود ہی نہ ہوں گا، چاہے ہزار سال ہی کیوں نہ گزر جائیں، مگر میں دوبارہ اِس دنیا میں نہ آؤں گا، نہ اِس دنیا میں آؤں گا، اور نہ اِس پہاڑی پر بیٹھ سکوں گا۔
کتنے سال سے اُس کی آرزو تھی کہ اُسے ایک شاندار اور بلند پایہ مستقبل نصیب ہو۔ پہلے پہل وہ ایک چھوٹا سا، ننھا سا بچہ تھا، پھر وہ جوان ہوا۔۔۔۔۔۔۔ جوان ہوا پھر ایک دن وہ آیا کہ ایک دُرشکے میں سوار ہو کر وہ الیکشن کے لیے جا رہا تھا، گرمی کے دن تھے، اور کھلی سڑک!۔۔۔۔۔ اپنے خیالات کی اِس رفتار پر غور کر کے کپتان آئی ونچ مسکرایا۔
لیکن تسلسلِ ایّام ابھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی ایک ایسا دن باقی ہے جب بقول لوگوں کے ہر ایک چیز خاتمہ کو پہنچ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ستّر۔۔۔۔۔ اسّی سال۔۔۔۔۔۔۔ اِس سے آگے کوئی شمار نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن انسانی زندگی چیز کیا تھی؟۔۔۔۔۔۔ طویل ہویا مختصر۔۔۔۔۔۔۔ !
"میری عمر طویل ہے "کپتان آئی ونچ کو خیال آیا "بہرحال طویل۔ ”
نیلگوں آسمان پر ایک ستارہ ٹوٹا ایک لمحے کے لیے شام گوں فضا روشن ہو گئی۔ کپتان نے اپنی بوڑھی اور اُداس آنکھیں اوپر اُٹھائیں اور دیر تک غور سے دیکھتا رہا۔ ستاروں کی اِس بے کرانی اور نیلمی فضا کی اِس لا محدودیت نے اُس کے دل کوکسی قدر تسکین پہنچائی۔
بہرکیف اُس کی زندگی پُر سکون تھی۔ پُر سکون گزری تھی۔ اُس کی موت بھی پُر سکون ہو گی۔ بعینہ ایسے جیسے سامنے کے پودے کی کسی شاخ پر کوئی پتی خشک ہو جاتی اور زمین پر گر پڑتی ہے۔
کھیتوں اور میدانوں کا دائرہ رات کی تاریکی میں، مختصر ہوتے ہوتے نظر سے غائب ہو رہا تھا، تاریکی بتدریج گہری ہوتی گئی، ستارے زیادہ درخشاں نظر آنے لگے ٹھہر ٹھہر کرا یک بٹیر کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔ گھاس کی خوشبو تازہ تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اُس نے آہستہ سے آزادی کے ساتھ گہرا سانس لیا۔
وہ اپنی زندگی پر اِس خاموش فطرت کا کس قدر گہرا اثر محسوس کر رہا تھا!

(روسی افسانہ) ازآئیون بنن

اختر شیرانی

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از اختر شیرانی