- Advertisement -

گواہی

مریم ثمر کا ایک اردو افسانہ

دریائے چناب کے اس پار، چند گاوں چھوڑ کر تھوڑا آگے جائیں تو لہلہلاتے کھیتوں ،بنجراور سرمئی خشک پہاڑیوں میں گھرا ایک گاوں ہے جو 32 چک کہلاتا ہے ۔ یہ بھی کیا ستم ظریقی ہے کہ روایتی شہروں کی طرح نام کی بجائے الا ماشاء اللہ ان دہی علاقوں کوایسے یاد کیا جاتا ہے جیسے قیدیوں کو نمبرالاٹ کر دیئے جائیں اور یہی ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
اس گاوں کی کوئی ایسی قابل ذکر بات نہیں جو خاص طورسے مشہور ہو، دور درازکا سفرکرتے چند پکھی واسیوں نے دریائے چناب کےساتھ کھیتی باڑی کے لئے وسیع زمین دیکھ کرپڑاوکیا اورپھریہیں ڈیرہ جما لیا ۔ جھونپڑیوں کی جگہ رفتہ رفتہ سرکاری زمین پر کچے مکان تعمیر ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے گاوں آباد ہوگیا ۔ مالی حالات مستحکم ہونے پریہاں کے باسیوں نے سرکار کو کچھ ادائیگی کے بعد زمین پکے کاغذوں پر اپنے نام کر والی اور دیگراہم ضروریات زندگی کی سہولیات دستیاب ہونے لگیں ، آٹا چکی ، اینٹے بنانےکا بھٹا ، کمہار، بڑھئی، موچی، درزی، ترکھان ،اپنی اپنی دکانیں بڑھاتے چلے گئے ۔
اسی گاوں کی ایک تنگ گلی کے آخری نکڑ پربنے کچے مکان میں ایک چھوٹا کنبہ آباد ہوا، میاں بیوی دو بیٹے اورایک بیٹی ،بیٹی کا نام مہرو تھا ۔
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب مہرو نو دس سال کی تھی۔ چونکہ گھرمیں چھوٹی تھی اس لئے عموما مہمانوں کے لئے دودھ پتی،سوڈا واٹرکی بوتل یا برف لانی ہوتی تو اسے دکان پربھیجا جاتا ۔
ایک دن اماں نے پیسے دیتے اورجلد واپسی کی تاکید کرتے ہوئے کہا
”مہرو پتر،تیرکی طرح جا ،سامنے دکان سے بسکٹ اور پتی لادے ۔ ”
وہ توجیسے پہلے سے ہی تیار تھی پیسےپکڑے، سائیکل سنبھالی اورباہر کو لپکی۔اس کا بس چلتا توجڑواں بھائیوں کی طرح تمام وقت گھرسے باہر گزاردیتی ، اس وقت بھی وہ کہیں دوستوں کےساتھ آوارہ گردی کر رہے تھے
مہرو کےلئے ماں کا حکم تھا ،گھر رہو، پڑھو لکھو، کام کرو۔وہ اکثرسوچتی مگر سمجھنے سے قاصر تھی آخر یہ سب پابندیاں اسی کے لئے کیوں ہیں ۔؟
اس نےسوچا کیوں نہ محلے کی پرانی دکان سے سودا سلف خریدنے کی بجائےکچھ دورحال ہی میں بنی دوکان سےخریداری کی جائے ۔ یہ سوچ کرسائیکل کا ہینڈل گھمایا اور تیز تیزپیڈل مارتی اس طرف چلدی۔ قریب پہنچ کر کیکر کے سہارے سائیکل لگائی اوردکان کی طرف بڑھی ۔
کریانے کا ضروری سامان سلیقے سے لگا رکھا تھا شمپو،سرف، پتی۔مصالحے کے چمکیلے چھوٹےچھوٹے ساشے،ایک ترتیب سے لٹک رہے تھے ۔ کاونٹرپررنگ برنگی ٹافیاں، بسکٹ، چاکلیٹ ،ببل، مرونڈے ،تل والے لڈو، پان مصالحہ نیلے پیلےسرخ سبزاورسفید ڈھکن والے، ایک جیسے چھوٹےجارمیں سجارکھے تھے جنہیں دیکھ کر مہرو کے منہ میں پانی بھر آیا ۔اتنے پیسےنہ تھے کہ باوجود چاہنے کےاضافی خریداری کرتی ۔
دکاندارمحلےکاچاچا خیردین تھا۔عمر یہی کوئی ساٹھ سترکےقریب ، سانولا رنگ ،بالشت بھر لمبی گھنی سفید داڑھی ، چھوٹا قد، لحیم شحیم جسامت ، کمر خمیدہ ، کالی ، پیلی ڈبیوں والی دھوتی اور سفید ململ کا شلوکہ پہن رکھاتھا جس سےتوند پھولےغبارے کی مانند باہر نکلتی تھی ۔ ۔حج سے آئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے اس لئے سر پر پورے بالوں کی بجائےسرکنڈے سے اگ آئے تھے ۔
مہرو دکاندار کو مخاطب کرتے ہوئے بولی
”چاچا! پتی کاچھوٹا ڈبہ،ایک پاوبسکٹ، میٹھےاورنمکین۔”
چاچا خیردین کا ہاتھ حرکت کرتا تھا مہرو کو دیکھتے ہی اس میں تیزی آگئی ۔ آس پاس کوئی نہ تھا ۔
چاچا نے مسکرا کےمعنی خیزنظروں سے دیکھا اورقریب آنےکا اشارہ کیا
”آو آو مہرو بیٹی، کیسی ہو قریب آو ۔ بسم اللہ بسم اللہ”
جار میں سےدو تین ٹافیاں نکالیں، پلاسٹک کے تھیلےمیں سامان رکھا اور ہاتھ بڑھایا مگرمہرو نےنفی میں سر ہلادیا ۔
چاچااصرارکرتے ہوئے بولا ،”ابھی بقایا نہیں ، رکھ لو ۔
مہرو نے جونہی سامان لیا، چاچا نے مضبوطی سے پکڑ لیااورتیزی سے جسم ٹٹولنے لگا۔
۔مہروکو بے چینی محسوس ہوئی، چاچا خیر دین نے اور قریب کرتے ہوئے جیسے ہی دونوں ہاتھوں سے چہرہ تھاما سامنے سے کچھ لوگ آتے دکھائی دیئے چاچاگھبرا گیا ۔عجلت میں مہرو کو چھوڑا اور لڑکھڑاتے قدموں تیزی سے دکان کےاندرونی حصے میں چلا گیا ۔
لوگ گھمبیرسیاسی وملکی حالات پر گفت و شنید کرتے دوکان کے سامنے سے گزر گئے ۔
مہرو کو ان حصوں پر جہاں چاچا خیر دین نے ہاتھ لگایا تھا یوں محسوس ہوا جیسےچیونٹیاں رینگ رہی ہوں ۔ایک ایسی کیفیت جسے سمجھنے سے قاصر تھی،۔ سرد ہوتے ہاتھوں سے سامان لےکرپلٹی،اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ۔
باربارایک ہی سوال دماغ میں ہتھوڑے برسارہا تھا ۔
” چاچے نےکیوں ہاتھ لگایا،آخرکیوں چھوا اس نے”
سائیکل پرسوارہونے کی ہمت نہ تھی اس لئے پیدل روانہ ہوئی ۔ عصر کی آذان سنائی دی تو غیر ارادی طور پر گردن سے لپٹے دوبٹے کو سر تک لے آئی ۔ ادھر چاچا خیر دین نے دکان کا شٹرگرایا او مسجد چل دیا ۔
چند دن بعد مہرو کسی کام سے باہر نکلی تو دیکھا سامنے سے ایک جنازہ آرہا ہےرشتے اور محلے دار قافلے کی صورت کلمہ شہادت پڑھتے دھیرے دھیرے سر جھکائے چلے جارہے تھے ۔ جنازہ دیکھ کر لوگ ٹہرتے جاتے تھے ،مہرو بھی رک گئی ۔
کوئی ہچکیوں کے درمیان کہہ رہا تھا ۔
”رات چاچا خیر دین کو اچانک دل کی تکلیف ہوئی ۔ خیراتی ہسپتال لےجاتےہوئے راستے میں دم توڑدیا ، بڑا ہی اللہ لوک تھا۔ پنجوقتہ نمازی، متقی پرہیز گار، غریب پرور،بس جی اس کی لکھی تھی ، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے ۔اللہ جنت نصیب کرے ۔جواب میں اردگردکھڑے لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا اور تائید میں سرہلاتے ہوئے کہا ۔”آمین”
مہرو نے سنا توتاسف سے سر جھکا لیا۔ اس دن کے بعد سے اس نے کبھی وہ راستہ نہ چنا تھا
جیسےجیسے وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی یہ احساس پختہ ہورہا تھاکہ وہ ایک ایسا شکار ہےجسے شکاری مرد د ہمہ وقت چیرنے پھاڑنےاور نوچنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں باوجود اس کے کہ اس سوچ کی نفی کرنےاورجھٹلانے میں لگی رہتی مگر پھر بھی یہ ہی خیال باربارستاتا ۔
یہ پہلا واقعہ اس سوچ کا جواز بن گیا اوراسی نے اتنے بڑے لفظ کو اس کے ننھے سے دماغ میں بٹھا دیا تھا ۔
وقت گزرتا رہااب وہ اٹھارہ سال کی ہوچکی تھی میڑک کا رزلٹ آنے ہی والا تھا ۔اعلی تعلیم کا شوق تھا مگرحالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ پڑھائی ادھوری چھوڑنی پڑی۔ ابا بیماررہنے لگے ان کی دوا کے اخراجات ہی پورے نہ ہوتے تھے ۔ بھائی محنت مزدوری کرکے جو کچھ کما کے لاتے بیماری پر لگ جاتا ۔
یہ سب اس سے دیکھا نہ جاتا تھا ۔ ایک دن اماں سے کہنے لگی۔”اماں میں بھی کام کرنا چاہتی ہوں تاکہ آپ کا ہاتھ بٹا سکوں۔” اماں اوربھائی قطعی راضی نہ تھےمگرحالات کو دیکھتے ہوئے مجبورا شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ۔
مہرو نے ٹرین سے تین گھنٹے کی مسافت طے کی اور لاہور پہنچ گئی ۔
جس گھر میں مہرو نے کام کرنا تھا اس کا پتہ سہیلی نے دیا جو تین سال سے ایک گھر میں کام کر رہی تھی ۔ معقول آمدنی اور دیگر سہولیات نے اسے اتنی دور آنے پر اکسایا تھا۔
لاہورکی یہ دنیا اس کے لئےہمیشہ اجنبی رہی ۔ گاوں کی زندگی سے یکسر مختلف۔ بڑے بڑے پلازے، شاپنگ مال، بے ہنگم ٹریفک کا شور،لوگوں کا جم غفیر، کیچوے کی طرح رینگنے کے برعکس تیز گام کی طرح حرکت کرتی زندگی ۔لگتا ہے جیسے مشینی دور میں داخل ہوگئے ہوں اب تویہ چاروں اطراف سے اتنا پھیل چکا ہے کہ مسائل، مشکلات اورنت نئی بیماریاں بڑھتی جارہیں ہیں اوران کا کچھ تدارک نہیں ۔
جس گھرمیں مہروکو کام ملا وہ زیادہ بڑا نہ تھا پچاس پچپن کی مالکن جسے اب وہ خالہ جی کہتی ان کے دو بیٹے تھے جبکہ میاں کاروباری سلسلہ میں زیادہ تربیرون ملک دوروں پررہتے ۔
خالہ جی خدا ترس اور نیک دل خاتون تھیں ،مہرو کا بہت خیال رکھتیں ،کام کا اضافی بوجھ نہ ڈالتی تھیں، جب انہیں پتہ چلا کہ اس نے میڑک کر رکھا ہے توچند رسائل اور کتب لے آئیں جن کا فارغ اوقات مطالعہ کیا کرتی، یوں اس کا وقت اچھا گزرنے لگا ۔
خالہ جی کے دونوں بیٹے اس سےعمر میں چند برس ہی بڑے ہوں گے ،پڑھائی میں مگن رہتے یا کھیلنے چلے جاتے۔ گھر میں ہوتے تو فارغ اوقات میں تیز موسیقی میں انگلش گانے سنتے جس کا ایک لفظ مہرو کے پلے نہ پڑتا بلکہ الٹا سر میں درد شروع ہوجاتا اور وہ چپ چاپ دوبٹہ لپیٹے کام میں مگن رہتی ۔جس دن دوست آجاتے خوب ہلاگلا ہوتا اور مہرو کا کام بھی بڑھ جاتا ہر ایک گھنٹے کے بعد چائے چپس نگٹس سموسے پکوڑوں کی فرمائش ہوتی ۔
مہرو کام کرکے بوکھلا جاتی اورجان پر بن آتی دعا کرتی کہ یہ بن بلائے مہمان جلد سے جلد رخصت ہوجائیں ۔
مہروکا دھیان کام کرتے ہروقت گھر کی طرف رہتا۔ اماں ابا اور بھائیوں کی فکرستاتی، رب کے حضور گڑ گڑا کے دعائیں کرتی ۔ہر جمعہ کی رات صلاۃ التسبح پڑھتی ۔ اللہ میاں ابا کو تندرست کردے ،کامل شفا دے ۔ صحت دے ، زندگی دے ”آمین کہتے کہتے دل بھرآتا ۔ جب تک سکون نہ ملتا تسلی نہ ہوتی سجدےسے سر نہ اٹھاتی ۔ بے چین اوربےقرارروح کو قرارآنے پردوپٹہ کے پلو سے آنسوصاف کرتےایک دفعہ پھر کاموں میں مصروف ہوجاتی ۔
پانچ ہزارخالہ جی نے اماں کومہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی دے دیئے تھے۔ یوں دوا دارواوردیگراخراجات باآسانی پورے ہوئے۔ خالہ جی کی اس فیاضی پران کے لئے بھی دل سےدعا کرتی وہ ان کی بے حد شکرگزارتھی ۔
ایک ماہ خیریت سےگزرگیا ۔
ایک دن جب سب اپنے اپنے کاموں پرجاچکے تھے ۔ مہرو کھانے کے برتن سمیٹ رہی تھی ، صبح سے بجلی کی آنکھ مچولی جاری تھی اور خلاف توقع آج گرمی پہلے سے زیادہ تھی گویا سورج آگ برسارہا تھا ۔ دروازے پرہلکی دستک ہوئی
”یہ اس وقت کون آگیا۔ ؟”
وہ دوپٹہ سے پسینہ پونجھتی خود سے سوال کرتی صحن سے گزرکردروازے تک آئی ۔
دروازہ کھولا تو سامنے خالہ جی کا بڑا بیٹا تھا ، بے وقت آجانے پراسے حیرت تو ہوئی مگر پھر سوچا، ہوسکتا ہے کچھ بھول گیا ہو،
۔شاید قدرت کی طرف سے یہ خصوصیت ہر انسان کو ودیعت ہے کہ وہ خطرے کو پہلے سے بھانپ لیتا ہے ۔مہرو کو بھی اچانک کچھ ایسا ہی احساس ہوا ۔مگر دوسرے ہی لمحے اس نے وہم سمجھ کے جھٹک دیا ۔
مہرو نے چپ چاپ راستہ چھوڑا اور باورچی خانے میں چلی آئی۔ پیچھے پیچھے وہ بھی آگیا ۔اس نے کالج بیگ ایک طرف رکھا اوراس کا ہاتھ پکڑکے بولا ۔
”مہرو تم بہت اچھی ہو،تمہارے یہ نرم ونازک ہاتھ کام کے لئے تونہیں، ادھرآو میرے پاس بیٹھو۔”
اس نے بے یقینی کی سی کیفیت سے اس کی طرف دیکھا،کالی گھنی مونچھوں کے نیچے ایک عجیب وحشیانہ مسکراہٹ اورآنکھوں میں ہوس تھی ۔
مہرو کی حیرت کو حقیقت میں بدلتے دیر نہ لگی جب اس نےاسے خود سے لپٹانے کی کوشش کی ۔اس اچانک حملے کے لئے وہ تیار نہ تھی ، صدمے کی ایک لہرآئی، تیز ہوائیں، طوفان کا پیش خیمہ بننے جارہی تھیں ۔
مہرو نے اپنی سی طاقت سے پرے دھکیلا۔ وہ تھوڑا سنبھلا اورپھربڑھا۔ خود کو پسپا ہوتا دیکھ کرمہرو نے منت سماجت شروع کردی۔اور روہانسی ہوکر بولی
”خدا کےلئے ایسا مت کرو، میں تمہیں اللہ، رسول کا واسطہ دیتی ہوں۔ میری مجبوری سے فائدہ نہ اٹھاو۔”
مگراس التجا کا کوئی اثرنہ ہوا ۔ وہ اسےزیرکر چکا تھا اورمہرو بھی بے بس تھی اس نے دھمکی دی ۔
”چیخ و پکارکی یا کسی کو بتایا تو یاد رکھنا چوری کا الزام لگا کر گھر سے نکلوا دوں گا۔”
مہرو کے سامنے اس کی مجبوریاں وحشیانہ انداز میں دھمال ڈالنے لگیں وہ پھوٹ پھوٹ کررودی اس کے علاوہ اور کیا کرتی ۔وہ جو پہلے ہی پسینہ پسینہ تھی اب پوری طرح نڈھال اور مکمل بھیگ چکی تھی ۔
دروازے پر دستک ہوئی تو اسے ہوش آیا وہ گھبرا کے مہرو سے الگ ہوا،فرش پر پڑی پینٹ اٹھائی،زیپ چڑھائی دوسرے ہاتھ سے بیگ کندھےسے لٹکایا اور اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
صدمے سے نڈھال مہرو نے ہوش وحواس بحال کرنے کی کوشش کی ۔ دوپٹہ ٹھیک کیا، بالوں کو سمیٹا کپڑے درست کئے ۔ دوتین گہرے سانس لئے ۔ خود کو بمشکل تسلی دی ۔” مہرو ہمت کر ،”
اسےعلم تھا کہ گوالے کے آنے کا وقت ہوچکا ہے ۔ کانپتے ہاتھوں سے الماری سے برتن نکالا اوردروازے کے باہر رکھ دیا۔گوالے نے دودھ برتن میں انڈیلا اور معمول کے مطابق ترچھی نگاہ سے مہرو کے سراپے کا بھرپور جائزہ لیتا پلٹ گیا ۔
مہرو نے کمال اداکاری سے خود پربیتے اس سانحہ کو چھپانے کی ہرممکن کوشش کی ۔
عورت کی پیدائش ہی جب جرم اورباعث شرم قراردی جائےتو معاشرہ کب جینے دیتا ہے اوراب توبچےبھی محفوظ نہیں ۔ وہ جان چکی تھی کہ اس ظلم کی کوئی سزا نہیں،چار گواہ نہ ہونے کے باعث الٹا وہی مجرم قرار پائے گی ۔اس لئے خاموش رہنا اس کی مجبوری بن گئی، لہو لہورستا گھاو توبس وہ ہی دیکھ سکتی تھی یا پھراس کا خدا اوروہ بھی خاموش تھا۔
خالہ جی کے ان گنت احسانات ، مہربان چہرہ زبان کو تالا لگانےپر مجبور کرتے تھے
اسی لئے اس نےخود پر سہتے ہوئے کسی نہ کسی طرح ایک ہفتہ گزارلیا اور مہینہ ختم ہوتے ہی گاوں پلٹ آئی ۔
معاملات شب وروزکے بدلاو میں وقت اورحالات نے کلیدی کردارادا کیا ۔
ابا دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ بھائی پڑھ لکھ گئے اوراچھی جگہ ملازمت کرنے لگے اسےاب مزیدکام کی ضرورت نہ تھی ۔ روائتی ماوں کی طرح اماں کو اب مہرو کے رشتے کی فکرستانے لگی، مگر وہ شادی سے انکاری تھی۔
اس کا کسی کام میں جی نہ لگتا تھا۔اکھڑی اکھڑی سی اوربےزار رہنے لگی ۔ کبھی ایسی پژ مردگی چھاجاتی کہ خود سے بھی اکتا جاتی ۔خودکشی کے بارے میں بھی سوچتی مگر دکھیاری ماں کا چہرہ دیکھ کرارادہ ترک کر دیتی۔
مہرو کی کیفیت کچھ ایسی تھی کہ ۔تنہائی میں گزرے واقعات یاد کرتی تو خود سے نفرت ہونے لگتی ۔
اب تو نمازمیں بھی سکون نہ ملتاتھا ، وہ خود کو بھی برابر کا مجرم سمجھنے لگی تھی ۔
ایک ہی سوال باربارستاتا ۔ ایسا کیوں ہوا ،؟ صرف میرے ساتھ ہی آخر کیوں ۔۔۔۔۔۔ جواب نہ ملنے پر بے بسی سے پھوٹ پھو۔ٹ کررودیتی ۔
وقت کاٹنا مشکل ہورہا تھا ۔ اسی وقت کو گزارنے کے لئے ایک دوجگہ ملازمت کے لئے درخواست دے دی ۔
اداسی اکتاہٹ اوربھیانک یادوں کے آسیب سے نکلنے کےلئے اسے کچھ تو کرنا تھا جو اب سایہ بن کراس کے ساتھ ساتھ رہنے لگیں تھیں اورکسی پل چین نہ لینے دیتی تھیں ۔
مہرو کوقریبی شہرمیں استانی کی ملازمت مل گئی ۔جو گھر سے چالیس منٹ کی دوری پرتھا ۔ 32 چک سے ایک بس روزانہ اسی سکول کے سامنے سے گزرتی تھی جو کچی سڑک سے اترتے ہوئے سرمئی خشک پہاڑوں کی بجری اور تارکول سے بنی سرگودھا روڈ پر ہو لیتی تھی ۔
بھائیوں کی شادیاں ہوئیں توایک شہرجا بسا، دوسراساتھ رہ رہا تھا۔ اماں کی دیکھ بھال کی اتنی فکرنہ تھی ۔ بھابھی نے کافی حد تک گھر سنبھال لیا تھا ۔
ایک دن سکول جانےکے لئےنکلی ۔ بس مقررہ وقت پرمل گئی جو مسافروں سے کچھا کھچ بھری تھی ۔
اس نے کنڈیکٹر سے کہہ کر اپنے لئے جگہ مخصوص کروارکھی تھی جوتیسری نشست چھوڑ کے دائیں جانب کھڑکی کے ساتھ تھی ۔اس کا خیال تھا کہ رش کی وجہ سے شکاری مردوں کے جسم بار بار ٹکرانے اورجان بوجھ کرچھونے سے محفوظ رہتے ہیں دوسرا قدرتی مناظر دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے ۔چلتی پھرتی ، کام کرتی بھانت بھانت کی مخلوق، کھیت کھلیان پیچھے دوڑتے گھراور درخت، دکانیں ان پر لگے سائن بورڈ پڑھنےاور بغور دیکھنے کی عادت ہوتی جارہی تھی ۔
سفرجاری تھا ۔ اچانک اسےیوں محسوس ہواجیسے چھپکلی سی اس کی پیٹھ پر رینگ رہی ہے پہلے تو وہ وہم سمجھی مگر جب یہ احساس شدید ہوا تو الجھن اور بے چینی بڑھنے لگی اسے اپنے کمرے کی چھت پر رینگتی زبان لپلپاتی چھپکلی یاد آگئی ۔ اسے لگاجیسےوہ آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے اورآہستہ آہستہ، بڑھتے بڑھتے سانپ برابر ہوگئی ہے۔ مہرو نے سوچ لیا تھا سانپ کے ڈسنے سے پہلےاس کا سر کچلناہے ۔
گزرےواقعا ت ایک ایک کرکے کسی فلم کی طرح چلنے لگے،
چاچا خیر دین مرحوم کی روح ۔ خالہ جی کا بیٹا، گوالے کی ہوس بھری نگاہیں جیسے اس کی بے بسی کا مذاق آڑا رہی تھیں ، اس کا خون کھول اٹھا ۔
وہ کچھ دیر یونہی دم سادھے بیٹھی رہی جب یہ سلسلہ رکنے کی بجائے بڑھنے لگا توبرسوں سے جلتا، آلاو بھانبڑ بن گیا۔سانسوں کا زیرو بم تیز ہوگیا ۔ قوت برداشت جواب دینے لگی ۔
ہچکولے کھاتی بس کے مسافراپنی ہی دھن میں ناک کی سیدھ میں دیکھتے ہوئے جلد ازجلد منزل پر پہنچنے کے بارے میں سوچ رہے تھے ۔
مہرو کا ہاتھ غیرارادی طو پرگود میں رکھے پرس کی جانب بڑھا ۔ اندرونی جیب کی زپ کھولی اسے ٹٹولا۔جونہی مطلوبہ چیزسے ہاتھ ٹکرایا، آنکھیں چمک اٹھیں ۔ جسم میں طاقت اورتوانائی بھرآئی ۔اس نے بے چینی سے پہلو بدلا، مضبوط عزم وہمت اور قوت ارادی سےایک جھٹکے سےکھڑی ہوگئی اس دوران پرس نشست کے نیچے لڑھک گیا مگراب کسے پرواہ تھی۔
مہرو کی پچھلی نشست پربیٹھا مسافرجو کافی آگےجھک آیا تھا، آو دیکھا نہ تاو اس پر چھری کے پے درپے وار کرنےلگی۔ اس سے پہلے کہ مسافرسنبھلتا یا دیگر مسافروں کو بیچ بچاو کا موقع ملتا، ایک بھرپوروارشہ رگ کو چھو گیا ، فوارہ پھوٹھتے ہی سرخ سیال مادہ بہہ نکلا ۔
چلتی بس میں ہیجان آمیز خوف اور دہشت کی فضا اک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئی ، مرد پریوں اچانک ہوئےحملےسےسب کی نگاہیں مہرو پرجم گئیں جس میں کئی سوالات ، حیرت ، اور نفرت کے ملے جلے تاثرات تھے ۔ شور و غوغا کرکےبس کو ہنگامی طورپررکوایا گیا۔
ادھر برسوں کی بے چین بے قرارروح اورغم وغصے کوجیسے قرارآگیا وہ پرسکون ہوکر نشت پرڈھے گئی ۔
مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ یہاں چار نہیں ہزاروں گواہ تھے جو مہرو کے خلاف گواہی دینے کے بعد فیصلے کے منتظر تھے ۔

مریم ثمر ۔ لائیبریا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
مریم ثمر کا ایک اردو افسانہ