- Advertisement -

دکھ کا ہر بہروپ انوکھا

مجید امجد کی ایک اردو نظم

دکھ کا ہر بہروپ انوکھا
ہر الجھن کا روپ انوکھا
غم کو جب اس دھرتی پر پرکھا
اک پل دھوپ اور اک پل برکھا
دردوں کے بندھن میں تڑپیں
لاکھوں جسم اور لاکھوں روحیں
میں جس آگ سے کلیاں چھانوں
میرا قصہ ہے ، میں جانوں
شام ہوئی ہے ، سوچ رہا ہوں
تو سورج ہے ، میں دنیا ہوں
لوٹ کے آنا ، تیرے بس میں
تجھ کو پانا تیرے بس میں
سایوں کی اک اک کروٹ پر
زنجیروں میں ڈوب گیا ہوں
دل میں چند شرارے لے کر
اپنی راکھ سے کھیل رہا ہوں

مجید امجد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از مجید امجد