دل میں لے کر بھڑاس پھرتے ہیں
جو مرے آس پاس پھرتے ہیں
تن پہ شرم و حیاء نہیں رکھتے
لوگ یہ بے لباس پھرتے ہیں
جم گئیں لب پہ پپڑیاں دیکھو
لے کے ہونٹوں پہ پیاس پھرتے ہیں
اپنی تقدیر پوچھتے ہیں مجھے
یہ جو چہرہ شناس پھرتے ہیں
حادثہ تو ابھی ہوا ہی نہیں
لوگ کیوں بد حواس پھرتے ہیں
جو بھی اقدار رہ گئیں باقی
ہم وہ لے کر اساس پھرتے ہیں
دل کا محرم نہیں کوئی صابرؔ
اس لیے ہم اداس پھرتے ہیں
ایوب صابر