- Advertisement -

کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں مَیں

ایک غزل از نجمہ کھوسہ

کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہوں مَیں اور ابھی تلک ہوں کہاں سلامت
فریبِ ہستی میں رہنے والے رہے ترا یہ جہاں سلامت

نہ کوئی بستی یہاں سلامت، نہ اس میں مکاں سلامت

یہی بہت ہے ہر ایک چہرے پہ بس ہے اشکِ رواں سلامت

پگھل چکا ہے وجود سارا، سلگ رہی ہے ہماری ہستی

چراغِ جاں کب کا بجھ چکا ہے، مگر ابھی تک دھواں سلامت

بس ایک لمحہ تھا روشنی کا، گرفت سے جو نکل گیا ہے

کوئی نشانی کہاں بچی ہے؟ مگر ہے دل پر نشاں سلامت

کسی سے شکوہ بھی کیا کریں اب، چمن پہ حق ہی نہیں تھا اپنا

بکھرنے والا یہ کہہ رہا ہے رہے ترا آشیاں سلامت

جنوں کے رستوں پہ میرے ہم دم، شمار زخموں کا کیوں کروں اب؟

تمہارا ہر ایک وار مجھ پر رہے گا اے مہرباں سلامت

یہ بے سبب سی اداسیاں ہیں، یہ روگ سہتی سی داسیاں ہیں

نئے زمانوں میں رہنے والو، رہے تمہارا زماں سلامت

اجڑ گیا ہے بکھر گیا ہے، یہ عشق آخر کو مٹ گیا ہے

کمین گاہوں میں رہنے والو، رہے تمہاری کماں سلامت

وہ حسن بانہوں میں سو گیا ہے، تو عشق راہوں میں کھو گیا ہے

یقیں کی منزل تو کھو چکی ہوں، مگر ابھی ہے گماں سلامت

میں اشک آنکھوں کے پی رہی ہوں، میں وار سہہ سہہ کے جی رہی ہوں

دعا کرو بس رہے ابد تک، مری یہ آہ و فغاں سلا مت

ابھی تو زندہ ہیں ہم جہاں میں، ابھی کہانی نہیں بچے گی

تمام کردار جب مریں گے، رہے گی پھر داستاں سلامت

نجمہ کھوسہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ڈاکٹر نجمہ کھوسہ کی ایک نظم