- Advertisement -

کوئی تو ہو جو ہمیں خوف سے رہائی دے

عثمان اقبال خان کی ایک اردو غزل

کوئی تو ہو جو ہمیں خوف سے رہائی دے
بصارتوں سے ٹپکتا لہو دہائی دے

دل و دماغ میں ہے اک مسخ شدہ آواز
یہ شور ختم اگر ہو تو کچھ سجھائی دے

اگر کہیں پس منظر کوئی تماشا ہے
تو میری آنکھ میں اس کی جھلک دکھائی دے

کھلیں معارف و اسرار کے جہاں مجھ پر
میرے خدایا مجھے کشف تک رسائی دے

سماعتیں کسی دن چھین لے درختوں کی
یا ان میں رہتے پرندوں کو خوش نوائی دے

مقام عشق میں پہنچا ہوں اس جگہ پہ جہاں
ترے خیال کی آہٹ بھی اب سنائی دے

ترا ضمیر ہی تیرا حلیف ہے عثمان
یہ مطمئن جو نہیں ہے اسے صفائی دے

عثمان اقبال خان

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عثمان اقبال خان کی ایک اردو غزل