اردو غزلیاتخورشید رضویشعر و شاعری

دیکھتا ہوں پھول اور کانٹے

خورشید رضوی کی ایک اردو غزل

دیکھتا ہوں پھول اور کانٹے بہ ہر سو آج بھی

یاد کرتا ہوں تری خوشبو تری خو آج بھی

جانے کیوں جلتی سلگتی شام کے ایوان میں

پھیل جاتی ہے تری باتوں کی خوشبو آج بھی

زیست کے خستہ شکستہ گنبدوں میں گاہ گاہ

گونجتا ہے تیری آوازوں کا جادو آج بھی

زلف کب کی آتش ایام سے کمھلا گئی

زلف کا سایہ نہیں ڈھلتا سر مو آج بھی

تو نے پانے ہاتھ میں جس پر لکھا تھا میرا نام

وہ صنوبر لہلہاتا ہے لب جو آج بھی

وہ ترا پل بھر کو ملنا پھر بچھڑنے کے لئے

دل کی مٹھی میں ہے اس لمحے کا جگنو آج بھی

مدتیں گزریں مگر اے دوست تیرے نام پر

ڈول جاتی ہے مرے دل کی ترازو آج بھی

خورشید رضوی

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button