- Advertisement -

ڈارلنگ

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

ڈارلنگ

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے۔ جب مشرقی اور مغربی پنجاب میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ کئی دن سے موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ وہ آگ جو انجنوں سے نہ بجھ سکی تھی۔ اس بارش نے چند گھنٹوں ہی میں ٹھنڈی کردی تھی۔ لیکن جانوں پر باقاعدہ حملے ہورہے تھے اور جوان لڑکیوں کی عصمت بدستور غیر محفوظ تھی۔ ہٹے کٹے نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں باہر نکلتی تھیں اور اِدھر اُدھر چھاپے مار کر ڈری ڈبکی اور سہمی ہوئی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔ کسی کے گھر پر چھاپہ مارنا اور اس کے ساکنوں کو قتل کرکے ایک جوان لڑکی کو کاندھے پر ڈال کر لے جانا بظاہر بہت ہی آسان کام معلوم ہوتا ہے لیکن’س‘ کا بیان ہے کہ یہ محض لوگوں کا خیال ہے۔ کیونکہ اسے تو اپنی جان پر کھیل جانا پڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو’س‘ کا بیان کردہ واقعہ سناؤں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے آپ کو متعارف کرادوں۔ ’س‘ ایک معمولی جسمانی اور ذہنی ساخت کا آدمی ہے۔ مفت کے مال سے اس کو اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی عام انسانوں کو ہوتی ہے۔ لیکن مالِ مفت سے اس کا سلوک دلِ بے رحم کا سا نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ایک عجیب و غریب ٹریجڈی کا باعث بن گیا۔ جس کا علم اسے بہت دیر میں ہوا۔ اسکول میں’س‘ اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ ہر کھیل میں حصہ لیتا تھا۔ لیکن کھیلتے کھیلتے جب نوبت لڑائی تک جا پہنچی تھی تو’س‘ اس میں سب سے پیش پیش ہوتا۔ کھیل میں وہ ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کر جاتا تھا۔ لیکن لڑائی کے موقع پر اس نے ہمیشہ ایمانداری سے کام لیا۔ مصوری سے’س‘ کو بچپن ہی سے دلچسپی تھی۔ لیکن کالج میں داخل ہونے کے ایک سال بعد ہی اس نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر سائیکلوں کی دکان کھول لی۔ فساد کے دوران میں جب اس کی دکان جل کر راکھ ہو گئی تو اس نے لوٹ مار میں حصہ لینا شروع کردیا۔ انتقاماً کم اور تفریحاً زیادہ، چنانچہ اسی دوران میں اس کے ساتھ یہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ جو اس کہانی کا موضوع ہے۔ اس نے مجھ سے کہا۔

’’موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ منوں پانی برس رہا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی تیز و تند بارش کبھی نہیں دیکھی۔ میں اپنے گھر کی برساتی میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ میرے سامنے لوٹے ہوئے مال کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ بے شمار چیزیں تھیں مگر مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میری دکان جل گئی تھی۔ مجھے اس کا بھی کوئی اتنا خیال نہیں تھا شاید اس لیے کہ میں نے لاکھوں کا مال تباہ ہوتے دیکھا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، دماغ کی کیا کیفیت تھی۔ اتنے زور سے بارش ہورہی تھی۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے اور ہر چیز خشک ہے۔ جلے ہوئے مردنڈوں کی سی بو آرہی تھی۔ میرے ہونٹوں میں جلتا ہوا سگرٹ تھا۔ اس کے دھوئیں سے بھی کچھ ایسی ہی بونکل رہی تھی۔ جانے کیا سوچ رہا تھا اور شاید کچھ سوچ ہی نہیں رہا تھا کہ ایک دم بدن پر کپکپی سی دوڑ گئی اور جی چاہا کہ ایک لڑکی اٹھا کر لے آؤں۔ جونہی یہ خیال آیا۔ بارش کا شور سنائی دینے لگا اور کھڑکی کے باہر ہر چیز پانی میں شرابور نظر آنے لگی۔ میں اٹھا، سامنے لوٹے ہوئے مال کے ڈھیر سے سگرٹوں کا ایک نیا ڈبہ اٹھا کر میں نے برسانی پہنی اور نیچے اتر گیا۔ ‘‘

’’سڑکیں اندھیری اور سنسان تھیں۔ سپاہیوں کا پہرہ بھی نہیں تھا۔ میں دیر تک ادھر ادھر گھومتارہا۔ اس دوران میں کئی لاشیں مجھے نظر آئیں۔ لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ گھومتا گھامتا میں سول لائنز کی طرف نکل گیا۔ لُک پھری ہوئی سڑک بالکل خالی تھی۔ جہاں جہاں بجری اکھڑی ہوئی تھی۔ و ہاں بارش جھاگ بن کر اڑ رہی تھی۔ دفعتہً مجھے موٹر کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی موٹر بیبی آسٹن اندھا دھند چلی آرہی تھی۔ میں سڑک کے عین درمیان میں کھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ اس انداز سے ہلانے لگا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ رک جاؤ۔ ‘‘

’’موٹر بالکل پاس آگئی مگر اس کی رفتار میں فرق نہ آیا۔ چلانے والے نے رخ بدلا۔ میں بھی پینترہ بدل کر ادھر ہو گیا۔ موٹر تیزی سے دوسری طرف مڑ گئی۔ میں بھی لپک کر ادھر ہولیا۔ موٹر میری طرف بڑھی مگر اب اس کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ پیشتر اس کے کہ میں کچھ سوچتا مجھے زور سے دھکا لگا اور میں اکھڑ کر فٹ پاتھ پر جاگرا۔ جسم کی تمام ہڈیاں کڑکڑا اٹھیں مگر مجھے چوٹ نہ آئی۔ موٹر کے بریک چیخے، پہیّے ایک دم پھسلے اور موٹر تیرتی ہوئی سامنے والے فٹ پاتھ پر چڑھ کر ایک درخت سے ٹکرائی اور ساکت ہو گئی۔ میں اٹھا اور اس کی طرف بڑھا۔ موٹر کا دروازہ کھلا اور ایک عورت سرخ رنگ کا بھڑکیلا مومی رین کوٹ پہنے باہر نکلی۔ میری کڑکڑائی ہوئی ہڈیاں ٹھیک ہو گئیں اور جسم میں حرارت پیدا ہو گئی۔ رات کے اندھیرے میں مجھے صرف اس کا شوخ رنگ رین کوٹ ہی دکھائی دیا۔ لیکن اتنا اشارہ کافی تھا کہ اس مومی کپڑے میں لپٹا ہوا جو کوئی بھی ہے۔ صنفِ نازک میں سے ہے۔ ‘‘

’’میں جب اس کی طرف بڑھا تو اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ بارش کے لرزتے ہوئے پردے میں سے مجھے دیکھ کر بھاگی۔ مگر میں نے چند گزوں ہی میں اسے جا لیا جب ہاتھ اس کے چکنے زین کوٹ پر پڑا تو وہ انگریزی میں چلائی۔

’’ہلپ ہلپ۔ ‘‘

میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور گود میں اٹھا لیا۔ وہ پھر انگریزی میں چلائی

’’ہلپ ہلپ۔ ہی از کلنگ می۔ ‘‘

میں نے اس سے انگریزی میں پوچھا۔

’’آر یو اے انگلش وومن‘‘

فقرہ منہ سے نکل گیا تو خیال آیا کہ اے کی جگہ مجھے این کہنا چاہیے تھا۔ اس نے جواب دیا۔

’’نو۔ ‘‘

انگریز عورتوں سے مجھے نفرت ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’دَن اِٹ از آل رائیٹ۔ ‘‘

اب وہ اردو میں چلانے لگی۔

’’تم مار ڈالو گے مجھے۔ تم مار ڈالو گے مجھے۔ ‘‘

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس لیے کہ میں اس کی آواز سے، اس کی شکل و صورت اور عمر کا اندازہ لگا رہا تھا۔ لیکن ڈری ہوئی ہوئی آواز سے کیا پتہ چل سکتا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر سے ہڈہٹانے کی کوشش کی۔ پر اس نے دونوں ہاتھ آگے رکھ دیے۔ میں نے کہا۔ ہٹاؤ اور سیدھا موٹر کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر اس کو پچھلی سیٹ پرڈ الا اور خود اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گیر درست کرکے سلف دبایا تو انجن چل پڑا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہینڈل گھمایا۔ گاڑی کوفٹ پاتھ پر سے اتارا اور سڑک میں پہنچ کر اکسلریٹر پر پیر رکھ دیا۔ موٹر تیرنے لگی۔ گھر پہنچ کر میں نے پہلے سوچا کہ اوپر برساتی ٹھیک رہے گی۔ لیکن اس خیال سے کہ لونڈیا کو اوپر لے جانے میں جھک جھک کرنی پڑے گی۔ اس لیے میں نے نوکر سے کہا۔ دیوانہ خانہ کھول دو۔ اس نے دیوان خانہ کھولا تو میں نے اسے گھپ اندھیرے ہی میں صوفے پر ڈال دیا۔ سارا رستہ خاموش رہی تھی۔ لیکن صوفے پر گرتے ہی چلانے لگی۔

’’ڈونٹ کِل می۔ ڈونٹ کِل می پلیز۔ ‘‘

مجھے ذرا شاعری سوجھی۔

’’آئی وونٹ کِل یو۔ آئی وونٹ کِل یو ڈارلنگ۔ ‘‘

وہ رونے لگی۔ میں نے نوکر سے کہا۔ چلے جاؤ۔ وہ چلا گیا۔ میں نے جیب سے دیا سلائی نکالی۔ ایک ایک کرکے ساری تیلیاں نکالیں مگر ایک بھی نہ سلگی۔ اس لیے کہ بارش میں ان کے مصالحے کا بالکل فالودہ ہو گیا تھا۔ بجلی کا کرنٹ کئی دنوں سے غائب تھا۔ اوپر برساتی میں ٹوٹے ہولے مال کے ڈھیر میں کئی بیٹریاں پڑی تھیں۔ لیکن میں نے کہا۔ اندھیرے ہی میں ٹھیک ہے، مجھے کون سی فوٹو گرافی کرنی ہے۔ چنانچہ برساتی اتار کر میں نے ایک طرف پھینک دی اور اس سے کہا۔

’’لائیے میں آپ کا رین کوٹ اتار دوں۔ ‘‘

میں نیچے صوفے کی جانب جھکا۔ لیکن وہ غائب تھی۔ میں بالکل نہ گھبرایا۔ اس لیے کہ دروازہ نوکر نے باہر سے بند کردیا تھا۔ گُھپ اندھیرے میں اِدھر اُدھر میں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ گئے اور تپائی کے ساتھ ٹکرا کر گر پڑے۔ فرش پر لیٹے ہی لیٹے میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جو گردن پر جاپڑا۔ وہ چیخی میں نے کہا۔

’’چیختی کیوں ہو۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ ‘‘

اس نے پھر سسکیاں لینا شروع کردیں۔ شاید اس کا پیٹ ہی تھا جس پر میرا ہاتھ پڑا۔ وہ دوہری ہو گئی۔ میں نے جیسا بھی بن پڑا اس کے رین کوٹ کے بٹن کھولنے شر وع کردیے۔ مومی کپڑا بھی عجیب ہوتا ہے جیسے بوڑھے گوشت میں چکنی چکنی جھریاں پڑی ہوں۔ وہ روتی رہی اور ادھر ادھر لپٹ کر مزاحمت کرتی رہی۔ لیکن میں نے پورے بٹن کھول دیے اسی دوران میں مجھے معلوم وہ کہ وہ ساڑھی پہنے تھی۔ میں نے کہا یہ تو ٹھیک رہا۔ چنانچہ میں نے ذرا معاملہ دیکھا۔ خاصی سڈول پنڈلی تھی جس کے ساتھ میرا ہاتھ لگا۔ وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ میں پہلے ذرا یوں ہی سلسلہ کررہا تھا۔ پنڈلی کے ساتھ جب میرا ہاتھ لگا تو بدن میں چار سو چالیس والٹ پیدا ہو گئے۔ لیکن میں نے فوراً ہی بریک لگا دیے کہ سہج پکے سو میٹھا ہو ئے۔ چنانچہ میں نے شاعری شروع کردی۔

’’ڈارلنگ۔ میں تمہیں یہاں قتل کرنے کے لیے نہیں لایا۔ ڈرو نہیں۔ یہاں تم زیادہ محفوظ ہو۔ جانا چاہو تو چلی جاؤ۔ لیکن باہر لوگ درندوں کی طرح چیر پھاڑ دیں گے۔ جب تک یہ فساد ہیں تم میرے ساتھ رہنا۔ تم پڑھی لکھی لڑکی ہو، میں نہیں چاہتا۔ کہ تم گنواروں کے چنگل میں پھنس جاؤ۔ ‘‘

اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔

’’یو وونٹ کِل می؟‘‘

میں نے فوراً ہی کہا۔

’’نو سر۔ ‘‘

وہ ہنس پڑی۔ مجھے فوراً ہی خیال آیا کہ عورت کو سر نہیں کہا کرتے۔ بہت خفت ہوئی۔ لیکن اس کے ہنس پڑنے سے مجھے کچھ حوصلہ ہو گیا۔ میں نے کہا۔ معاملہ پٹا سمجھو، چنانچہ میں بھی ہنس پڑا۔

’’ڈارلنگ، میری انگریزی کمزور ہے۔ ‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’اگر تم مجھے مارنا نہیں چاہتے تو یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘

سوال بڑا بے ڈھب تھا۔ میں نے جواب سوچنا شروع کیا۔ لیکن تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا جو منہ میں آئے کہہ دو۔

’’میں تمہیں مارنا بالکل نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ مجھے یہ کام بالکل اچھا نہیں لگتا۔ تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں اکیلا تھا۔ ‘‘

وہ بولی۔

’’تمہارا نوکر تمہارے پاس رہتا ہے۔ ‘‘

میں نے بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا۔

’’اس کا کیا ہے وہ تو نوکر ہے۔ ‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ میرے دماغ میں نیکی کے خیال آنے لگے میں نے کہا۔ ہٹاؤ چنانچہ اٹھ کر اس سے کہا۔

’’تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ اٹھو۔ ‘‘

میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک دم مجھے اس کی پنڈلی کا خیال آگیا اور میں نے زور سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا۔ اس کی گرم گرم سانس میری ٹھوڑی کے نیچے گھس گئی۔ میں نے اٹکل پچو اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر جما دیے۔ وہ لرزنے لگی۔ میں نے کہا۔

’’ڈارلنگ ڈرو نہیں۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔ ‘‘

’’چھوڑ دو مجھے۔ ‘‘

کی آواز میں عجیب و غریب قسم کی کپکپاہٹ تھی۔ میں نے اسے اپنی گرفت سے علیحدہ کردیا۔ لیکن فوراً ہی اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔ سڑک پر اسے اٹھاتے وقت مجھے محسوس نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اس کے کولہوں کا گوشت بہت ہی نرم تھا۔ ایک بات مجھے اور بھی معلوم ہوئی وہ یہ کہ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ تھا۔ میں نے اسے صوفے پر لٹا دیا اور بیگ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔

’’اگر اس میں کوئی قیمتی چیز ہے تو یقین رکھو یہاں بالکل محفوظ رہے گی۔ بلکہ چاہو تو میں بھی تمہیں کچھ دے سکتا ہوں۔ ‘‘

وہ بولی۔

’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ ‘‘

’’لیکن مجھے چاہیے‘‘

اس نے پوچھا۔

’’کیا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’تم۔ ‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ میں فرش پر بیٹھ کر اس کی پنڈلی سہلانے لگا۔ وہ کانپ اٹھی۔ لیکن میں ہاتھ پھیرتا رہا۔ اس نے جب کوئی مزاحمت نہ کی تو میں نے سوچا کہ مجبوری کی وجہ سے بیچاری نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دیا ہے۔ اس سے میری طبیعت کچھ کھٹی سی ہونے لگی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

’’دیکھو میں زبردستی کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ تمہیں منظور نہیں ہے تو جاؤ۔ ‘‘

یہ کہہ کر میں اٹھنے ہی والا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ جو کہ دھک دھک کررہا تھا۔ میرا بھی دل اچھلنے لگا۔ میں نے زور سے ڈارلنگ کہا اور اس کے ساتھ چمٹ گیا۔ دیر تک چوما چاٹی ہوتی رہی۔ وہ سسکیاں بھر بھر کے مجھے ڈارلنگ کہتی رہی۔ میں بھی کچھ اسی قسم کی خرافات بکتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس سے کہا۔

’’یہ رین کورٹ اتار دو۔ بہت ہی واہیات ہے۔ ‘‘

اس نے جذبات بھری آواز میں کہا۔

’’تم خود ہی اتار دو ناں۔ ‘‘

میں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور کوٹ اس کے بازوؤں میں سے کھینچ کر اتار دیا۔ اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

میں اس وقت اپنا حدود اربعہ بتانے کے موڈ میں نہیں تھا۔

’’تمہارا ڈارلنگ!‘‘

اس نے

’’یو آر اے نوٹی بوائے‘‘

کہا اور اپنی باہیں میرے گلے میں ڈ ال دیں میں اس کا بلاؤز اتارنے لگا تو اس نے میرے ہاتھ پکڑ لیے اور التجا کی۔

’’مجھے ننگا نہ کرو ڈارلنگ، مجھے ننگا نہ کرو۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’کیا ہوا۔ اس قدر اندھیرا ہے۔ ‘‘

’’نہیں، نہیں!‘‘

’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ۔ ‘‘

اس نے میرے دونوں ہاتھ اٹھا کر چومنے شروع کردیے اور لرزاں آواز میں کہنے لگی۔

’’نہیں نہیں۔ مجھے شرم آتی ہے۔ ‘‘

عجیب ہی سی بات تھی۔ لیکن میں نے کہا۔ چلو ہٹاؤ چھوڑو بلاؤز کو۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں کچھ دیر خاموش رہا تو اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا

’’تم ناراض تو نہیں ہو گئے؟‘‘

مجھے کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں ناراض ہوں یا کیا کہوں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا

’’نہیں نہیں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ تم بلاؤز نہیں اتارنا چاہتی ہو، نہ اتارو۔ لیکن۔ ‘‘

اس سے آگے کہتے ہوئے مجھے شرم آگئی۔ لیکن ذرا گول کرکے میں نے کہا۔

’’لیکن کچھ تو ہونا چاہیے۔ میرا مطلب ہے کہ ساڑھی اتار دو۔ ‘‘

’’مجھے ڈر لگتا ہے‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کا حلق سوکھ گیا۔ میں نے بڑے پیار سے کہا۔

’’کس سے ڈر لگتا ہے۔ ‘‘

’’اسی سے۔ اسی سے‘‘

اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کردیا۔ میں نے اُسے تسلی دی کہ ڈرنے کی وجہ کوئی بھی نہیں۔

’’میں تمہیں تکلیف نہیں دوں گا۔ لیکن اگر تمہیں و اقعی ڈر لگتا ہے تو جانے دو۔ دو تین دن یہاں رہو جب میری طرف سے تمہیں پورا اطمینان ہو جائے تو پھر سہی۔ ‘‘

اس نے روتے روتے کہا۔

’’نہیں نہیں۔ ‘‘

اور اپنا سر میری رانوں پر رکھ دیا۔ میں اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے رونا بند کردیا اور سوکھی سوکھی ہچکیاں لینے لگی۔ پھر ایک دم مجھے اپنے ساتھ زور کے ساتھ بھینچ لیا اور شدت کے ساتھ کانپنے لگی۔ میں نے اسے صوفے پر سے اٹھ کر فرش پر بٹھا دیا اور۔ کمرے میں دفعتہً روشنی کی لکیریں تیر گئیں۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے پوچھا

’’کون ہے؟‘‘

نوکر کی آواز آئی۔

’’لالٹین لے لیجیے‘‘

میں نے کہا۔

’’اچھا‘‘

لیکن اس نے آواز بھینچ کر خوفزدہ لہجے میں کہا۔

’’نہیں نہیں۔ ‘‘

میں نے کہا۔

’’حرج کیا ہے۔ ایک طرف نیچی کرکے رکھ دوں گا۔ ‘‘

چنانچہ میں نے اٹھ کرلالٹین لی اور دروازہ اندر سے بند کردیا۔ اتنی دیر کے بعد روشنی دیکھی تھی۔ اس لیے آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ اٹھ کر ایک کونے میں کھڑی ہو گئی تھی۔ میں نے کہا

’’بھئی اتنا بھی کیا ہے۔ تھوڑی دیر روشنی میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ جب تم کہو گی اسے گل کردیں گے۔ ‘‘

چنانچہ میں لالٹین ہاتھ ہی میں لیے اس کی طرف بڑھا۔ اس نے ساڑھی کا پلو سرکا کہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ میں نے کہا

’’تم بھی عجیب و غریب لڑکی ہو۔ اپنے دولھے سے بھی پردہ۔ ‘‘

یہ کہہ میں سمجھنے لگا کہ وہ میری دولہن ہے اور میں اس کا دولھا۔ چنانچہ اسی تصور کے۔ تحت میں نے اس سے کہا۔

’’اگر ضد ہی کرنی ہے تو بھئی کرلو۔ ہمیں آپ کی ہر ادا قبول ہے۔ ‘‘

ایک دم زور کا دھماکا ہوا۔ وہ میرے ساتھ چمٹ گئی۔ کہیں بم پھٹا تھا۔ میں نے اس کو دلاسا دیا۔

’’ڈرو نہیں۔ معمولی بات ہے‘‘

۔ ایک دم مجھے خیال آیا جیسے میں نے اس کے چہرے کی جھلک دیکھی تھی۔ چنانچہ اس کو دونوں کندھوں سے پکڑ کرمیں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں بیان نہیں کرسکتا۔ میں نے کیا دیکھا۔ بہت ہی بھیانک صورت، گال اندر دھنسے ہوئے جن پر گاڑھا میک اپ تھپا تھا۔ کئی جگہوں پر سے اس کی تہہ بارش کی وجہ سے اتری ہوئی تھی اور نیچے سے اصلی جلد نکل آئی تھی جیسے کئی زخموں پرسے پھاہے اتر گئے ہیں۔ خضاب لگے خشک اور بے جان بال جن کی سفید جڑیں دانت دکھا رہی تھیں۔ اور سب سے عجیب و غریب چیز مومی پھول تھے جو اس نے اس کان سے اس کان تک ماتھے کے ساتھ ساتھ بالوں میں اڑسے ہوئے تھے۔ میں دیر تک اس کو دیکھتا رہا۔ وہ بالکل ساکت کھڑی رہی۔ میرے ہوش و حواس گم ہو گئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میں سنبھلا تو میں نے لالٹین ایک طرف رکھی اور اس سے کہا

’’تم جانا چاہو تو چلی جاؤ!‘‘

اس نے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن جب دیکھا کہ میں اس کا رین کوٹ اور بیگ اٹھا رہا ہوں تو خاموش ہو گئی۔ میں نے یہ دونوں چیزیں اس کی طرف دیکھے بغیر اس کو دے دیں۔ وہ کچھ دیر گردن جھکائے کھڑی رہی۔ پھر دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ ‘‘

یہ واقعہ سُنا کر میں نے’س‘ سے پوچھا۔

’’جانتے ہو وہ عورت کون تھی؟‘‘

’س‘ نے جواب دیا۔

’’نہیں تو۔ ‘‘

میں نے اس کو بتایا۔

’’وہ عورت مشہور آرٹسٹ مس’م‘ تھی۔ ‘‘

وہ چلایا۔

’’مس’م‘؟۔ وہی جس کی بنائی ہوئی تصویروں کی میں اسکول میں کاپی کیا کرتا تھا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔

’’وہی۔ ایک آرٹ کالج کی پرنسپل تھی۔ جہاں وہ لڑکیوں کو صرف عورتوں اور پھولوں کی تصویر کشی سکھاتی تھی۔ مردوں سے اسے سخت نفرت تھی۔ ‘‘

عزت جہاں کو آپ یقیناً جانتے ہوں گے۔ کون ہے جو اس لڑکی کے نام سے واقف نہیں۔ اگر آپ سوشلسٹ ہیں اور بمبئی میں رہتے ہیں تو آپ ضرور عزت سے کئی بار ملاقات کرچکے ہوں گے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ اس نے اپنی زندگی کے کئی برس اشتراکیت کی تحریک کی نشر و اشاعت میں صرف کیے ہیں اور حال ہی میں ایک غیر معروف آدمی سے شادی کی ہے۔ اس غیر معروف آدمی کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ناصر سے میں اس زمانے کا واقف ہوں جب میں اس کو ناصو کہا کرتا تھا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں وہ میرا ہم جماعت تھا۔ میں تو اپنی تعلیم بیماری اور مفلسی کے باعث جاری نہ رکھ سکا مگر وہ صرف مفلس تھا۔ اس نے بی اے کا امتحان کسی نہ کسی طرح پاس کرلیا اور بمبئی کی ایک بہت بڑی مِل میں ملازم ہو گیا۔ میں ان دنوں بمبئی ہی میں تھا۔ جب وہ دلی کے ایک کارخانے میں کام کرتا کرتا بمبئی آیا اور مل میں ملازم ہوا۔ اس دوران میں اس سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن افسوس ہے کہ چند وجوہ کی بنا پر میں بمبئی میں اپنا قیام جاری نہ رکھ سکا اور مجھے مجبوراً دلی جا کر ایک نہایت ہی ذلیل ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ خیر! میں نے دلی کو دو برس کے بعد خیر باد کہا اور بمبئی شہر کا رخ کیا۔ جہاں میرے چند عزیز دوستوں کے علاوہ اب عزت جہاں بھی رہتی تھی۔ میں خود سوشلسٹ ہوں۔ سوشلزم پر میں نے سینکڑوں مضمون لکھے ہیں مگر وہ مضامین جو میں نے عزت جہاں کے قلم سے مختلف اخباروں میں پڑھے تھے، میرے دل و دماغ پر مرتسم ہو گئے تھے۔ خدا کے لیے کہیں یہ خیال نہ کیجیے گا کہ مجھے اس سے غائبانہ عشق تھا۔ دراصل مجھے اس لڑکی یا عورت کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا صرف اشتیاق تھا۔ اخباروں اور رسالوں میں اکثر اس کی سرگرمیوں کا حال پڑھ چکا تھا اور مجھے اس سے بے پناہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ میں چاہتا تھا۔ اس سے ملوں، اس سے باتیں کروں اور جس طرح کالج اور اسکول کے نو گرفتارِ محبت لونڈے اپنے رومانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح میں اس سے اشتراکیت کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار کروں۔ ہم دونوں سیگل سے لے کر کارل مارکس تک اشتراکی فلسفے کی نشو وارتقاء کی باتیں کرتے۔ لینن، لراتسکی اور اسٹالن کے مختلف نظریات پر گفتگو کرتے۔ میں ہندوستان کی سوشلسٹ تحریک کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکرتا۔ وہ بھی اپنے خیالات مجھے بتاتی۔ میں اسے ان نوجوانوں کی کہانیاں سناتا جو کارل مارکس کی کتاب محض اس لیے بغل میں دبائے پھرتے ہیں کہ انھیں دوسروں پر رعب گانٹھنا مقصود ہوتا ہے۔ میں اسے اپنے ایک دوست کی داستان سناتا جس کے پاس سوشلزم پر ہر وہ کتاب جو انگریزی زبان میں چھپ چکی ہے۔ موجود ہے مگر وہ سوشلزم کی الف ب سے بھی واقف نہیں وہ کارل مارکس کا نام اس طرح لیتا ہے جس طرح لوگ اپنے قریبی رشتہ دار میونسپل کمشنروں کا لیتے ہیں۔ میں عزت کو بتاتا کہ اس کے باوجود وہ مخلص آدمی ہے جو سوشلزم کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ پھرمیں اس سے ان لڑکوں اور لڑکیوں کے متعلق بات چیت کرتا جو سوشلزم صرف اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے ملنے اور جنسی تعلقات پیدا کرنے کا موقعہ ملے۔ میں اسے بتاتا کہ پچاس فیصدی لڑکے جو سوشلسٹ تحریک میں شامل ہوتے ہیں شہوت زدہ ہوتے ہیں۔ اپنی ہم جماعت لڑکیوں کو وہ یوں دیکھتے ہیں جیسے ان کی نگاہیں صدیوں کی بھوکی پیاسی ہیں اور اکثر لڑکیاں جو اس تحریک میں شامل ہوتی ہیں۔ سرمایہ داروں کی ہنگامہ پسند بیٹیاں ہوتی ہیں اپنی زندگی میں حادثے پیدا کرنے کے لیے یہ سوشلزم پر چند ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد اس تحریک کی سرگرم کارکن بن جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو آہستہ آہستہ جنسی خواہشات کے خرابے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں اور کچھ آزادی کی آخری حدود پر پہنچ کر ایک ایسی جذباتی چیز بن جاتی ہیں جو ملک کے نام نہاد لیڈروں کے کھیلنے کے کام آتی رہتی ہے۔ غرض یہ کہ عزت جہاں سے ہندوستان کی اشتراکی تحریک کے عواقب و عواطف پر سیر حاصل بحث کرنے کا خوب لطف آتا۔ اس کے مضامین سے میں اس کی ذہانت اور بیباک خیالی معلوم کرچکا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری ہم خیال ہو گی۔ بمبئی آکر مجھے ایک دوست کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔ کیونکہ مکان اور فرنیچر کا بندوبست کرتے کرتے مجھے کئی روز خوار ہونا تھا۔ بیوی کو میں دلی ہی چھوڑ آیا تھا۔ اس سے میں نے کہہ دیا تھا کہ جونہی مکان ملے گا۔ میں تمہیں بلالوں گا۔ میرے سب دوست کنوارے ہیں اور فلم ڈائریکٹر عورتوں کے متعلق آپ کا فلسفہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ آپ چونکہ اسٹوڈیو میں کسی ایکٹرس یا ایکٹر کی لڑکی سے تعلقات پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت کے وقت مختلف دلالوں کے ذریعے سے ایک لڑکی منگوا لیتے ہیں۔ رات بھر اسے اپنے پاس رکھتے ہیں اور صبح ہوتے ہی اسے رخصت کردیتے ہیں۔ شادی اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے خیال کے مطابق بیوی ان سے کبھی خوش نہیں رہے گی۔

’’بھائی میں فلم ڈائریکٹر ہوں۔ دن کو شوٹنگ کروں گا تو دن بھر باہر رہوں گا رات کو شوٹنگ کروں گا تو رات بھر باہر رہوں گا۔ دن کو کام کرنے کے بعد رات کو اور رات کو کام کرنے کے بعد دن کو آرام کرنا ضروری ہے۔ بیوی مجھ سے اپنے سارے حقوق طلب کرے گی مجھے بتاؤ ایک تھکا ہوا آدمی یہ سارے حقوق کیسے پورے کرسکتا ہے۔ ہر روز ایک نئی لونڈیا اچھی ہے نیند آگئی تو اس سے کہا جاؤ سو رہو۔ اگر اس کی صحبت سے تنگ آگئے تو ٹیکسی کا کرایہ دیا اور چلتا کیا۔ عورت بیوی بنتے ہی ایک بڑا فرض بن جاتی ہے۔ میں چونکہ فرض شناس ہوں اس لیے شادی کا بالکل قائل نہیں۔ ‘‘

جس دوست کے ہاں میں ٹھہرا ہوا تھا ایک دن میں اور وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک لڑکی ڈھونڈنے گئے۔ دلال جو اس کا پرانا واقف تھا۔ ایک کے بجائے دو

’’دکھشنی چھوکریاں‘‘

لے آیا۔ میں بہت سٹپٹایا۔ مگر فوراً ہی میرے دوست نے کہا۔ تم گھبراؤ نہیں۔ ایک اور دو میں فرق ہی کیا ہے؟‘‘

ٹیکسی واپس گھر کی طرف مڑی ہم سب یعنی میں، میرا دوست فلم ڈائریکٹر اور وہ دو کاشٹا پوش لڑکیاں تین سیڑھیاں طے کرکے تیسری منزل پر پہنچے۔ فلیٹ کا دروازہ میں نے کھولا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ہی ایک کرسی پر ناصر بیٹھا بڑے انہماک سے میرا اردو ٹائپ رائٹر دیکھ رہا تھا اور اس کے پاس ہی ایک عینک لگی عورت بیٹھی تھی جب اس نے مڑ کرہماری طرف دیکھا تو میں پہچان گیا۔ عزت جہاں تھی۔ میرا دوست ان اجنبیوں کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ لیکن دونوں

’’دکھشنی چھوکریاں‘‘

اندر کمرے میں داخل ہو چکی تھیں۔ اس لیے اس نے پردہ پوشی کی ضرورت بیکار سمجھی۔ میں نے اپنے دوست سے ناصر کا تعارف کرایا۔ ناصر نے جواب میں ہم دونوں سے اپنی بیوی کو متعارف کرایا۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے دوست سے جو اب سگرٹ سلگا رہا تھا۔ عزت جہاں کا مزید تعارف کرانے کی خاطر۔

’’یہ ہندوستان بہت بڑی اشتراکی خاتون ہیں۔ تم نے ان کے مضامین ضرور پڑھے ہوں گے۔ ‘‘

میرے دوست کو اشتراکیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اس نام ہی سے ناواقف تھا۔ اس نے دونوں لڑکیوں کو دوسرے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا اور ہم سب سے مخاطب ہوکر کہا۔

’’معاف فرمائیے گا۔ میں ابھی حاضر ہوا۔ ‘‘

عزت جہاں کی آنکھیں ان لڑکیوں پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ان کے لباس، وضع قطع، غرضیکہ ہر چیز کا اچھی طرح جائزہ لے رہی تھی۔ جب وہ دونوں دوسرے کمرے میں چلی گئیں اور میرے دوست نے جرأت رندانہ سے کام لے کر دروازہ بند کردیا۔ تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔

’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ناصر ہرروز مجھ سے کہتے تھے کہ چلو چلو۔ پر میں ان دنوں کچھ زیادہ مصروف رہی۔ اور۔ آپ تو اب یہیں تشریف لے آئے ہیں نا؟۔ مکان برا نہیں!‘‘

اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھ کر خوشنودی کا اظہار کیا۔ میں نے کہا۔

’’جی ہاں اچھا ہے۔ ہوا دار ہے۔ ‘‘

’’ہوادار تو خاک بھی نہیں۔ ‘‘

’’بیچ کا دروازہ کھلا ہو تو بہت ہوا آتی ہے۔ ‘‘

’’ہاں شاید پہلے آرہی تھی۔ ‘‘

دیر تک میں اور ناصر اور عزت جہاں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے مگر میں محسوس کررہا تھا کہ عزت کے دل میں کُھد بُد ہورہی ہے۔ میرا دوست جلدی حاضر ہونے کا وعدہ کرکے دو لڑکیوں کے ساتھ دوسرے کمرے میں کیا کررہا تھا؟۔ غالباً وہ یہی معلوم کرنے کے لیے بیقرار تھی۔ نصف گھنٹہ گزرنے پر اس نے بڑے تکلف کے ساتھ مجھ سے کہا۔

’’ایک گلاس پانی پلوا دیجیے۔ ‘‘

فلیٹ کے دو راستے ہیں ایک سامنے سے۔ ایک پیچھے۔ میں نے درواز کھلوانا مناسب خیال نہ کیا۔ چنانچہ دوسرے راستے سے گلاس میں پانی لے کر آگیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ میاں بیوی دونوں کُھسر پھسر کررہے ہیں۔ عزت جہاں نے گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا اور کہا۔

’’آپ نے بہت تکلیف کی۔ ‘‘

’’جی نہیں۔ اس میں تکلیف کی بات ہی کیا ہے۔ ‘‘

پانی پی کر اس نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑیں اور بناوٹی لہجے میں کہا۔

’’اس فلیٹ کے غالباً دو راستے ہیں۔ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘

کچھ دیر پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ بدل کر اشتراکیت کی طرف آگیا اور میں اور عزت دونوں سرخ ہو گئے۔ میں نے باتوں باتوں میں اشراکیت کے متعلق اپنے نقطہ ءِ نظر کو واضح کیا۔

’’اشتراکی کہتے ہیں کہ تمام انسانی ادارے مثال کے طور پر مذہب، تاریخ، سیاست وغیرہ سب ہمارے معاشی حالات سے اثر پذیر ہو کر معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ موجودہ نظامِ معیشت جس میں امیر اور غریب کا امتیاز ہے اور جس میں پیداوار کے تمام آلات ایک محدود اونچے طبقے کے ہاتھ میں ہیں انھیں صرف ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے یہ ایک مضر اور تباہ کن ادارہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کردینا چاہیے۔ جب اس کا خاتمہ ہو جائے گا تو آپ کے خیال کے مطابق اشتراکی دور شروع ہو گا۔ جس میں تمام آلات پیداوار۔ یہی ہمارے معاشی حالات پر حاوی ہیں عوام کے قبضے میں آجائیں گے۔ عزت جہاں نے میری تائید کی۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’عوام کی قوت اور حکومت کی نمائندہ ایک خاص جماعتِ حاملہ ہو گی۔ جسے اشتراکی حکومت کہا جائے گا۔ ‘‘

عزت جہاں نے پھر کہا۔

’’جی ہاں۔ ‘‘

’’لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اشتراکی نظام میں بھی تمام قوت ایک محدود طبقے کے ہاتھ میں ہو گی۔ یہ نمائندہ جماعت اشتراکیوں کے فلسفے کے مطابق تمام لوگوں کی بہبودی کو مدارِ عمل بنائے گی۔ اس جماعت کو ذاتی اغراض اور شخصی منافع سے کوئی واسطہ نہ ہو گا اس کے اغراض عوام کے مقاصد کے مطابق ہوں گے۔ لیکن۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر وثوق سے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ محدود جماعت جو بظاہر عوام کی نمائندہ جماعت ہو گی۔ کچھ عرصے کے بعد سرمایہ داروں کی طرح ہر قسم کے ظلم و ستم ڈھائے گی۔ کیا یہ لوگ غاصب نہیں ہوسکتے۔ کچھ عرصے کی حکومت کے بعد کیا ان کے دل میں ذاتی اغراض پیدا نہیں ہوں گی؟‘‘

عزت جہاں مسکرائی۔

’’آپ تو باکونین کے بھائی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘

میں نے جوش کے ساتھ کہا۔

’’مانتا ہوں کہ کارل مارکس کے ساتھ ساری عمر لڑنے کے باوجود باکونین کسی نقطہ مفاہمت پر نہیں پہنچ سکا اور اپنے اخلاص کے باوجود کسی مدلل اور منظم فلسفے کی بنیاد نہیں ڈال سکا۔ لیکن اس کا یہ کہنا جھوٹ نہیں ہے کہ ڈیمو کریسی بھی ایک بڑی جماعت کے دوسری چھوٹی جماعت پر جابرانہ نظامِ حکومت کا نام ہے۔ میں ایسے دورِ سیاست کا قائل ہوں جس کا سماج ہر قسم کی حکومت اور دباؤسے آزاد ہو‘‘

عزت پھر مسکرائی۔ تو آپ انار کزم چاہتے ہیں جو ایک ناقابل عمل چیز ہے۔ آپ کا باکونین اور کرویٹوکین دونوں مل کر اسے قابلِ قبول نہیں بنا سکتے۔ ؟‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔

’’اشتراکیت کے پاس بھی کوئی قابل عمل فلسفہ نہیں تھا۔ لوگ اسے دیوانوں کا ایک دھندلا سا خواب سمجھتے تھے۔ مگر انیسویں صدی میں کارل مارکس نے اس کو ایک قابل عمل معاشرتی نظام کی صورت میں پیش کیا۔ ممکن ہے انارکزم کو بھی کوئی کارل مارکس مل جائے۔ ‘‘

عزت جہاں نے بند دروازے کی طرف دیکھا اور جیسے اس نے میری بات سنی نہیں مجھ سے پوچھا۔

’’آپ کے دوست وعدہ کرکے گئے تھے ابھی آئے نہیں؟‘‘

میں نے بہتر سمجھا کہ اسے سب کچھ بتا دوں۔

’’انھوں نے تکلف برتا تھا۔ ورنہ ان کا مقصد یہی تھا کہ وہ نہیں آئیں گے۔ ‘‘

عزت جہاں نے بڑے بھولے پن سے کہا۔

’’کیوں؟‘‘

میں ناصر کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ جو اب ہماری گفتگو میں دلچسپی لینے لگا تھا۔

’’دو لڑکیاں اس کے ساتھ ہیں انھیں چھوڑ کر وہ ایسی خشک محفل میں کیسے آسکتا ہے؟‘‘

عزت نے یہ سن کر مجھ سے دریافت کیا۔

’’یہ دو لڑکیاں فلم ایکٹرس تھیں؟‘‘

’’جی نہیں۔ ‘‘

’’دوست ہوں گی؟‘‘

’’جی نہیں۔ آج ہی جان پہچان ہوئی ہے۔ ‘‘

اس کے بعد آہستہ آہستہ میں نے ساری بات بتادی اور جنسیات کے بارے میں اپنے دوست کا نظریہ بھی اچھی طرح واضح کردیا۔ بڑے غور سے میری تمام باتیں سن کر اس نے فتویٰ دینے کے انداز میں کہا۔

’’یہ انارکزم کی بدترین قسم ہے۔ آپ کے دوست کے خیالات اگر عام ہو جائیں تو دنیا میں ایک اندھیر مچ جائے۔ عورت اور مرد کے تعلقات صرف۔ صرف بستر تک محدود ہو جائیں اور کیا؟۔ یہ آپ کے دوست جو کوئی بھی ہیں یہ عورت کو کیا سمجھتے ہیں۔ ڈبل روٹی، کیک یا بسکٹ۔ زیادہ سے زیادہ کافی یا چائے کی ایک گرم پیالی۔ پی اور جھوٹے برتنوں میں ڈال دی۔ لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو یہ ذلت برداشت کرلیتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی میں جنسیات کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔ کیا آپ کے یہ دوست بغیر عورت کے زندہ نہیں رہ سکتے۔ انھیں ہر روز عورت کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟‘‘

میں نے اپنے ذاتی خیال کا اظہار۔

’’عورت کی ضرورت ہر مرد کو عمر کے ایک خاص حصے میں محسوس ہوتی ہے۔ اس کو بعض زیادہ اہمیت دیتے ہیں بعض کم۔ میرا دوست ان بعض لوگوں میں سے ہے جو اس کو روزمرہ کی ایک ضرورت سمجھتے ہیں۔ اگر کھانا پینا اور سونا اہم تو اس کے نزدیک عورت بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ غلطی پر ہو مگر اس نے اپنی اس کمزوری کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی۔ ‘‘

عزت جہاں کے لہجے میں اور زیادہ تلخی پیدا ہو گئی۔

’’پردہ پوشی نہیں کی۔ تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ راستی پر ہیں۔ فاحشائیں کھلے بندوں اپنا جسم بیچتی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا وجود فطری ہے۔ چونکہ ہمارا نظام بالکل غلط اور غیر فطری ہے۔ اسی لیے ہمیں یہ چکلے نظر آتے ہیں۔ چونکہ آپ کے دوست کا نظامِ عصبی تندرست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عورت اور روٹی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ روٹی کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس جسمانی تعلق کے بغیر یقیناً زندہ رہ سکتا ہے!‘‘

میں نے کہا۔

’’جی ہاں زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کی میں زندگی اور موت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتاہے۔ ہر مرد کو عورت دستیاب نہیں ہوسکتی۔ لیکن جس کو دستیاب ہو سکتی ہے۔ وہ اسے اپنی ضروریاتِ زندگی میں شامل کرلیتا ہے۔ ‘‘

ناصر کو اب اس گفتگو سے بھی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی بیزاری کا اظہار کرہی دیا۔

’’ہٹاؤ یار اس قصے کو۔ بہت وقت ہو گیا اور ہمیں یہاں سے پورے انیس میل دور جانا ہے۔ چلو عزت چلیں۔ ‘‘

عزت نے اپنے خاوند کی بات سنی ان سنی کردی اور مجھ سے کہا۔

’’کچھ بھی ہو مگر آپ کے دوست اصل میں بہت ہی بدتمیز ہیں۔ یعنی اتنا بھی کیا کہ یہاں ہم تین آدمی بیٹھے ہیں اور آپ دوسرے کمرے میں۔ لاحول ولا قوۃ۔ ‘‘

ناصر کو نیند آرہی تھی۔

’’ارے بھئی خدا کے لیے اب سلسلے کو ختم کرو۔ چلیں!‘‘

عزت بھنا گئی۔

’’ارے واہ۔ ارے واہ۔ یہ تو آہستہ آہستہ میرے خاوند ہی بن بیٹھے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ ناصر بھی ہنس دیا۔ ہم دونوں ہنسے تو عزت جہاں کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آگئی۔

’’اور کیا۔ یہ آہستہ آہستہ خاوند بننا ہی تو ہے۔ یعنی مجھ پر رعب جمایا جارہا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد ناصر اور عزت تھوڑی دیر اور بیٹھے اور چلے گئے۔ پہلی ملاقات خاصی دلچسپ رہی۔ ہندوستان کی اشتراکی تحریک کے بارے میں گو مفصل طور میں عزت جہاں سے گفتگو نہ کرسکا۔ لیکن پھر بھی اس نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں نے سوچا کہ اس سے آئندہ ملاقاتیں بہت ہی فکر خیز ہوں گی۔ میں نے اپنا فلیٹ لے لیا۔ دلی سے بیوی بھی آگئی تو عزت ایک بار پھر آئی۔ دونوں پہلی ہی ملاقات میں سہیلیاں بن گئی۔ چونکہ عزت جہاں کو ہر روز اپنے دفتر جانے کے لیے شہر آنا پڑتا تھا۔ اس لیے شام کو گھر لوٹتے ہوئے اکثر ہمارے ہاں آجاتی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس بیٹھے اور ہم ہیگل، کارل مارکس، اینجل، باکونین، کروپٹوکین اور تراتسکی کے متعلق باتیں کریں اور سوشلزم کے ہر دور کو سامنے رکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ مگر میری بیوی اور وہ دونوں دوسرے کمرے میں جا کر پلنگ پر لیٹ جاتی تھیں اور جانے کیا کیا باتیں شروع کردیتی تھیں۔ اگر کبھی میں سوشلزم پر اسٹالن کی موجودہ جنگی پالیسی کے اثر کا ذکر چھیڑتا تو وہ میری بیوی سے سفید اون کا بھاؤ پوچھنا شروع کردیتی۔ اگر میں ایم۔ این۔ رائے کی ریا کاری کی بات کرتا توہ

’’خاندان‘‘

فلم کے کسی گیت کی تعریف شروع کردیتی تھی اور اگر میں اسے اپنے پاس بٹھا کر روس کے موجودہ جنگی نظام پر گفتگو کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ تھوڑی ہی دیر کے بعد اٹھ کے باورچی خانے میں چلی جاتی اور میری بیوی کا ہاتھ بٹانے کی خاطر پیاز چھیلنے میں مشغول ہو جاتی۔ دن بھر وہ پاٹری کے دفتر میں کام کرتی تھی۔ شام کو تھکی ہوئی گھر پہنچتی تھی جو دفتر سے بیس پچیس میل دور تھا۔ الیکٹرک ٹرین میں ایک ایک گھنٹے کا سفر اس کو دن میں دو دو مرتبہ کرنا پڑتاتھا۔ آتے اور جاتے ہوئے۔ اس کا خاوند مل میں ملازم تھا۔ مہینے میں پندرہ دن اسے رات کو ڈیوٹی دینا پڑتی تھی۔ لیکن عزت خوشی تھی۔ میری بیوی سے کئی مرتبہ کہہ چکی تھی۔

’’شادی کا مطلب صرف بستر نہیں اور خاوند کا مطلب صرف رات کا ساتھی نہیں۔ دنیا میں انسان صرف اسی کام کے لیے نہیں بھیجا گیام۔ ‘‘

۔ اور میری بیوی اس کی اس بات سے بہت متاثر تھی۔ عزت جہاں اپنا کام بہت خلوص سے کررہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اس کی بے اعتنائیاں بری معلوم نہیں ہوتی تھیں وہ مجھ سے زیادہ میری بیوی کے پاس بیٹھنا اور اس سے بات چیت کرنا پسند کرتی تھی۔ مجھے اس کا مطلقاً خیال نہیں تھا۔ بلکہ میں سوچ رہا تھا کہ وہ بہت جلد میری بیوی کو جو متوسط طبقے کے سرمایہ داروں کی ذہنیت رکھتی تھی۔ اپنی ہم خیال بنا لے گی۔ ایک روز کا ذکرہے۔ میں اپنے دفتر سے جلد واپس آگیا۔ غالباً دو عمل ہو گا میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ میری بیوی کے بجائے ناصر نے کھولا میں سیدھا اپنے میز کی طرف بڑھا۔ چونکہ حسبِ عادت مجھے اپنا بیگ رکھنا تھا۔ ناصر سامنے میرے پلنگ پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا۔ ادھر صوفے پر عزت جہاں لیٹی تھی۔ ناصر نے کہا۔

’’بھئی مجھے بخار ہورہا ہے۔ ‘‘

میں نے عزت جہاں کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔

’’اور آپ۔ ؟‘‘

عزت نے جواب دیا۔

’’جی نہیں۔ میں ایسے ہی لیٹی ہوں۔ ‘‘

’’رقیہ کہاں ہے؟‘‘

عزت نے جواب دیا۔

’’دوسرے کمرے میں سو رہی ہیں۔ ‘‘

’’یہ کیا۔ ہر ایک سورہا ہے۔ ‘‘

میں نے اپنی بیوی کو آواز دی۔

’’رقیہ۔ رقیہ‘‘

اندر سے نیند بھری آواز آئی۔

’’جی!‘‘

’’ارے بھئی ادھر آؤ۔ کب تک سوئی رہو گی؟‘‘

رقیہ آنکھیں ملتی آئی اور عزت کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔ ناصر کمبل اوڑھے لیٹا رہا۔ میں اپنی بیوی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر گہری نیند کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ کیونکہ رقیہ ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سونے کی عادی ہے۔ اس کے بعد عزت اور میری بیوی کے درمیان کروشیے اور سلائیوں کی باتیں چھڑ گئیں۔ اسی دوران میں چائے آگئی۔ ناصر نے لیٹے لیٹے ایک پیالی پی لی۔ میں نے بخار دورکرنے کے لیے اسے اسپرو کی دو ٹکیاں دیں جو اس نے لے لیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک یہ لوگ بیٹھے رہے۔ اس کے بعد چلے گئے۔ رات کو سونے کے لیے جی میں پلنگ پر لیٹا تو حسبِ عادت میں نے اوپر کے تکیے کو دہرا کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نچلے تکیے کا غلاف ہی نہیں ہے۔ رقیہ سے جو میرے پاس کھڑی اپنے کپڑے تبدیل کررہی تھی میں نے پوچھا۔

’’اس تکیے پرغلاف کیوں نہیں چڑھایا۔ ‘‘

رقیہ نے غور سے تکیے کی طرف دیکھا اور حیرت سے کہا۔

’’ہائیں، سچ مچ یہ غلاف کدھر غائب ہو گیا۔ ہاں۔ وہ آپ کے دوست۔ ‘‘

میں نے مسکرا کر پوچھا۔

’’کیا ناصر لے گیا؟‘‘

’’کیا معلوم؟‘‘

رقیہ نے رک رک کرکہا۔

’’ہائے کتنی شرم کی بات ہے۔ میں نے ابھی تک یہ بات آپ کو بتائی ہی نہیں تھی۔ میں اندر سو رہی تھی اور وہ آپ کے دوست اور اس کی بیوی۔ لعنت بھیجیے۔ بڑے بدتمیز نکلے۔ ‘‘

دوسرے روز تکیے کا غلاف پلنگ کے نیچے سے ملا جس کو چوہوں اور کاکروچوں نے جگہ جگہ سے دھن ڈالا تھا اور اسپرو کی دو ٹکیاں جو میں نے ناصر کو بخار دورکرنے کے لیے دی تھیں۔ وہ بھی پلنگ کے نیچے سے مل گئیں!

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو