بونوں سے سمجھوتہ کرکے دیکھتے ہیں
اپنے قد کو چھوٹا کرکے دیکھتے ہیں
تاریکی کا چہرہ کیسا ہوتا ہے
گھر میں آج اجالا کرکے دیکھتے ہیں
سارے شہر میں اس کے صبر کے چرچے ہیں
خودداری پر حملہ کرکے دیکھتے ہیں
شاید دل سے دل کی راہ نکل آئے
ان آنکھوں کو رستہ کرکے دیکھتے ہیں
چہرہ مِرا آئینہ ہُوا تو کچھ احباب
آنکھوں کو پتھریلا کرکے دیکھتے ہیں
وحشی دل کو چین میسّر آجائے
پھر رشتے کو صحرا کرکے دیکھتے ہیں
بھیڑ بہت ہے کس کس کو پہہچانیں گے
اک اک فرد اکیلا کرکے دیکھتے ہیں
دوری کی گنجائش کب تک رہتی ہے
طارق خود سے جھگڑا کرکے دیکھتے ہیں
ڈاکٹر طارق قمر