شام شفق کے
خون دُھلے اوندھے طشتر میں
جیٹھ کے چاند کی قاش پڑی ہے
گاؤں کے ٹیڑھے آنگن کے اِک گوشے میں
خُرّم خاں کی لاش پڑی ہے
بھابھی دوڑی دوڑی آئی
اُس نے اپنا درد دوہتّڑ
خُرَّم خان کے پتھرائے سینے پر رکھاّ
اُس کا ٹھنڈا پنجر چکھاّ
لاش کی نیم کُھلی آنکھوں میں
اپنی گیلی آنکھیں ڈالیں
سرگوشی کی
دھیمی دھیمی بات نہیں تھی
جس کو زِندوں کے کانوں کی گہری دَرزیں چُن لیتی ہیں
سرگوشی تھی
جس کو لاشیں سُن لیتی ہیں
خُرَّم خاں کی اُجڑی بیوی
اپنی پھولی آنکھیں کھول کے دیکھ رہی تھی
لاش پڑی ہے
اور اُس کے ٹھہرے سینے پر
جیٹھ کے چاند کی قاش پڑی ہے
دور آنگن میں
ننھا گُولگ کھیل رہا ہے
ثانی خرم خاں لگتا ہے
اسلم خاں
نفرت کی چھت سے
آنگن کی وحشت کا چہرہ دیکھ رہا ہے
مرا ہوا بھائی تو بس اک آئنہ ہے
جس کی یخ بستہ چوکھٹ میں
اُس کا بچہّ کھیل رہا ہے
چاندی جیسی رِیش بھرے اِک شخص نے آکر
کمر جھکائی
خرم خاں سے آنکھ ملائی
سینے سے چادر کو اُٹھا کر چہرہ ڈھانپا
اور کہا:
"بہت ہوا
اب کفنا دو
لاش کی شیو نکل آئی ہے
دفنا دو”
وحید احمد
18 فروری 2025