آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزانور علی

محترمہ دعا کی جدوجہد اور قربانی

ایک عورت کے حوصلے اور ایثار کی کہانی

آج میں ایک ایسی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے تیار راستوں پر چلنے کے بجائے اپنا راستہ خود چنا۔ نہ صرف اپنے لیے راہ ہموار کی بلکہ اپنے پورے خاندان کے لیے بھی ایک نیا راستہ اختیار کیا اور اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میں کچھ ایسی باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں جو شاید اُنہیں یا اُن کے خاندان کو بھی معلوم نہ ہوں کہ میں ان سے کتنا متاثر ہوا ہوں۔

یہ تقریباً 2009 کا واقعہ ہے۔ میں اُس وقت آر ای سی کنسلٹنٹ میں کام کر رہا تھا، اور میری زندگی پرسکون انداز میں گزر رہی تھی۔ وہاں کچھ دوستوں نے سعودی عرب میں نوکری کے لیے درخواست دی اور میرا سی وی بھی بھیج دیا۔ جلد ہی میرا انتخاب ہو گیا، لیکن بدقسمتی سے میں میڈیکل ٹیسٹ میں ناکام ہو گیا، جبکہ باقی گیارہ انجینئرز سعودی عرب چلے گئے۔
یہ واقعہ میرے دل و دماغ پر بہت اثر انداز ہوا، اور میں شدید مایوسی کا شکار ہو گیا۔ جب میں اپنے گاؤں واپس آیا، تو بیماری کے باعث بستر سے لگ گیا۔ مجھے کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہا، اور میرے اہلِ خانہ جو مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے، شدید پریشان ہو گئے۔
میرا تعلق ایک غیر تعلیمیافتہ خاندان سے تھا، جہاں علم کی اہمیت پہلے ہی کم تھی، اور رسم و رواج کا شعور بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ لوگوں کے مشورے پر میرے گھر والے مجھے مختلف پیروں، درگاہوں اور عاملوں کے پاس لے جانے لگے۔ دیہات کے سادہ لوح لوگ لاعلمی کی وجہ سے مختلف تعویذ، دم درود اور جھاڑ پھونک کرواتے ہیں، وہ سب کچھ مجھ پر بھی آزمایا گیا۔
جب یہ خبر ڈاکٹر محمد شیخ تک پہنچی، تو انہوں نے میرا علاج لاڑکانہ کے ایک معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر رحمت واگن سے کروایا۔ یہ لمحے میری زندگی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔
اس دوران میرے دوست منصور میر اریجو، جو کبھی میرے کرکٹ کے ساتھی تھے، میری حالت دیکھ کر فرشتہ صفت مددگار بنے۔ جب میرے اپنے گھر والے مجھے پاگل سمجھنے لگے، تو ان دو شخصیات نے میرا ساتھ دیا اور مجھے سہارا دیا — یہ وہ احسان ہے جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔
ڈاکٹر کے علاج سے میری حالت چھ ماہ کے اندر کافی بہتر ہو گئی۔ اس عرصے میں، میں نے رات کو تہجد پڑھنا شروع کر دیا، اور اللہ کا ذکر میرے دل و جان کا حصہ بن گیا۔ میرے گھر والے حیران تھے کہ یہ کون سی نماز ہے جو میں رات کو پڑھتا ہوں، کیونکہ وہ دین اور دنیا، دونوں سے ناواقف تھے۔

میرا سی وی پہلے ہی ایم ایم پی کمپنی میں جمع تھا، اور اگست 2009 میں مجھے آر بی او ڈی پروجیکٹ (مکلی، ٹھٹھہ) میں نوکری مل گئی۔ وہاں کا ماحول اچھا تھا، اور مجھے نئے دوست بنانے کا موقع ملا۔
میرے روم میٹ ایک بزرگ سروئیر محمد پھول تھے، جو ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر ذاکر نائیک اور حامد میر کے پروگرام دیکھتے تھے۔ شروع میں یہ سب کچھ مجھے عجیب سا لگتا تھا، کیونکہ میں بچپن سے بالی ووڈ فلموں، گانوں اور کرکٹ کا شوقین تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ، ان پروگرامز میں میری دلچسپی بڑھنے لگی۔
اسی دوران، میرے ایک اور دوست ندیم (جو کراچی کے اردو اسپیکر تھے) نے میری پڑھنے کی عادت کو دیکھتے ہوئے مجھے مختلف اسلامی کتابیں لا کر دینا شروع کیں۔
جب مجھے نماز میں ضروری سورتیں یاد کرنے میں دشواری ہوئی، تو میں نے عابد میمن سے بات کی، جس پر انہوں نے مجھے تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت گزارنے کا مشورہ دیا تاکہ سیکھنے کا موقع مل سکے۔ میں نے نور مسجد سے پہلی بار تین دن تبلیغ میں گزارے، اور مکلی میں مختلف اجتماعات میں شرکت کرتا رہا۔ اس دوران میں نے بہت سی تسبیحات، سورتیں اور درود شریف سیکھے — وہ سب کچھ جو میرے لیے بالکل نیا تھا۔
لوگ کہتے ہیں کہ تبلیغی لوگ اچھے نہیں ہوتے — واللہ اعلم (اللہ بہتر جانتا ہے) — مجھے ان باتوں سے کوئی سروکار نہ تھا؛ میرا مقصد صرف سیکھنا تھا۔
بعد میں جب میں نے اپنے گاؤں کی مسجد کی خستہ حالت اور وہاں حافظِ قرآن کی کمی دیکھی، تو میں نے سائیں مٹھو اریجو صاحب کے ساتھ مل کر ایک حافظ صاحب کا انتظام کیا۔ اس وقت میرے والد، اللہ انہیں جنت عطا کرے، سعودی عرب میں کام کر رہے تھے، میرے چچا بھی وہیں تھے۔ میں نے ان سے مالی مدد کی درخواست کی، جس پر انہوں نے کچھ رقم بھیجی، جس سے ہم نے مسجد کی مرمت کروائی۔
جلد ہی، میرے اپنے گاؤں کے کئی دوست کہنے لگے، "سنا ہے تم مولوی بن گئے ہو!” کچھ نے کہا، "تم وہابی ہو گئے ہو!”
یہ تو عام بات ہے — جب بھی کوئی شخص نیکی کے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے، تو شیطان اسے لوگوں کے ذریعے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن میں نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی۔
تھوڑی ہی مدت میں، میرے اپنے خاندان کے 10-11 بچے قرآن پڑھنے لگے۔ آج وہ سب ناظرہ قرآن مکمل کر چکے ہیں، جو ہمارے لیے ایک بڑی نعمت ہے، اور محلے کے دوسرے بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
ایک دن، جب میں نے مکلی کی اسٹیل کالونی مسجد میں نماز ادا کی، تو مجھے اے ایل سی (امریکن لینگویج سینٹر) کا ایک پمفلٹ ملا۔ میرے دل میں خیال آیا: کیوں نہ اپنے فارغ وقت کا اچھا استعمال کروں؟ میں نے ان کے دفتر کا دورہ کیا، جہاں میری ملاقات محترمہ افراح سے ہوئی۔ معلومات حاصل کرنے کے بعد، میں نے کمپیوٹر کلاسز میں داخلہ لے لیا اور ساتھ ہی انگریزی سیکھنے کی کلاسز بھی شروع کر دیں۔
ایک دن، گفتگو کے دوران، میں نے محترمہ دعا سے اُن کی جدوجہد اور سینٹر کے قیام کی کہانی پوچھی
تعلیم: انہوں نے بی اے، بی ایڈ، ایم اے، اور ایم ایڈ کیا ہے۔
عمر: 61 سال۔
وہ ایک محنتی عورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک گھریلو خاتون بھی رہیں، اور انہوں نے اپنے چار بچوں کی پرورش کی، جو اسی اسکول میں پڑھے جہاں وہ ایڈمنسٹریٹر تھیں۔ انہوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔ شادی کے بعد بھی، گھر اور سسرال کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے، انہوں نے اپنی ماسٹرز کی تعلیم مکمل کی۔
انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ جہاں بھی گئیں، اکثر وہ واحد عورت ہوتی تھیں، اور لوگ اس کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔
ابتداء میں، ان کا خواب تھا کہ وہ ایک عورت کے طور پر اپنی زندگی میں کامیاب ہوں، کیونکہ وہ ایک مضبوط عورت کی بیٹی تھیں۔ لیکن پھر، ان کا خواب اپنے بچوں کے لیے بدل گیا۔ انہوں نے دن رات محنت کی، اوور ٹائم بھی کیا، تاکہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر سکیں۔
اپنے بچوں کے لیے اسکول قائم کرنے کے ساتھ ساتھ، انہوں نے شام کے وقت ایک لرننگ سینٹر بھی شروع کیا، جہاں طالب علم انگریزی زبان سیکھتے تھے۔ اس وقت، وہ صرف اپنے بچوں کے لیے نہیں بلکہ ٹھٹھہ شہر کے بچوں کے لیے بھی کام کر رہی تھیں۔ اس سینٹر میں بہت سے طالب علم پڑھنے آئے، اور ان کی زندگیاں سنور گئیں۔ وہ خواب دیکھتی تھیں کہ یہ طالب علم علم حاصل کر کے اعتماد کے ساتھ دنیا کا سامنا کر سکیں۔
ان کی کہانی نے مجھے بے حد متاثر کیا
اور میرے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا کیا۔
2004 میں، مجھے ٹھٹھہ کے ایک انجینئر سلیم انڑ صاحب سے ملنے کا موقع ملا، جنہوں نے کہا تھا:
"میں نے اپنی ساری کمائی اپنے بھائیوں کی تعلیم پر لگا دی، اور آج وہی میری سب سے بڑی دولت ہے۔”
جب میں 2009 میں ان سے دوبارہ ملا، تو میں نے ان کے پورے خاندان کو پڑھا لکھا اور خوشحال دیکھا۔ کتابیں پڑھنے کے مقابلے میں حقیقی زندگی کی کامیاب کہانیاں کہیں زیادہ اثر رکھتی ہیں۔
محترمہ دعا اور سلیم صاحب سے متاثر ہو کر، میں نے اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھایا، اور جلد ہی ہمارے گاؤں میں ہمارا خاندان تعلیم یافتہ خاندان کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
جب مجھے محسوس ہوا کہ میرا مشن کامیاب ہو رہا ہے، تو میں نے اپنا دائرہ کار بڑھایا:
پہلے خود کو بہتر بنایا، پھر اپنے گھر کو، اور آخر کار اپنے محلے کو۔
2022 میں، میں نے ایک فاؤنڈیشن قائم کی، جس کا نام گروئنگ ونگز فاؤنڈیشن رکھا، تاکہ اس مشن کو جاری رکھا جا سکے — انسانیت کی خدمت کے اس سفر کو جو میں نے تعلیم کے ذریعے شروع کیا تھا۔
یہ کہانی ہے کہ میں نے اپنی زندگی کو کیسے بدلا اور دوسروں کی زندگی کو سنوارنے کی کوشش کی، محترمہ دعا جیسے بے لوث افراد سے متاثر ہو کر۔ اللہ ہماری یہ عاجزانہ کوششیں قبول فرمائے۔
مکلی ٹھٹہ سے میری ایسی جذباتی یادیں جُڑی ہوئی ہیں، جو آج تک میرے دل میں تازہ ہیں۔ وہاں میں نے دینی تعلیم حاصل کی، کمپیوٹر میں CIT اور انگلش سیکھی۔ ان سب چیزوں کے ساتھ، مجھے وہاں سے ایک عظیم مقصد کا راستہ ملا، جو ہمیشہ میری نظر میں اُس جگہ اور وہاں جُڑے لوگوں کو عزت اور احترام کے قابل بناتا ہے۔
2011 کے بعد میرا تبادلہ ہوا اور میں ہیڈ جمہڑاؤ پہنچا، جہاں ایک پروجیکٹ میں منتخب ہوا اور بین الاقوامی لوگوں، غیر ملکی افراد کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ یہ سب اللہ پاک کے کرم، اساتذہ کی محنت اور میری جدوجہد کی بدولت ممکن ہوا۔
یہ خراجِ تحسین خاص طور پر محترمہ دعا صاحبہ کے لیے ہے۔ آج اتنا بڑا آرٹیکل لکھنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ ایک تو میری اور میڈم کی سالگرہ ایک ہی دن، یعنی 15 مارچ کو آتی ہے، جو ہم نے سینٹر کے دوران بھی ایک ساتھ منائی تھی۔ میرے تبادلے کے بعد، میں ہر سال ایک بار ضرور انہیں فون کرتا ہوں، خاص طور پر 15 مارچ کو۔
آج میں نے سوچا کہ میڈم کو سالگرہ کی مبارکباد دوں اور ان کے خاندان اور ایجوکیشن سینٹر سے حاصل کیے گئے اسباق کا شکریہ ادا کروں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر سندھ میں ایسے استاد ہوں، تو پورا تعلیمی نظام بدل سکتا ہے۔ اللہ پاک میڈم اور ان کے پورے خاندان کو خوش رکھے۔
نیک دعاؤں کے ساتھ:
(15 مارچ، جنم دن مبارک 🎂🎉🎁)

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button