- Advertisement -

بابا کی گڑیا

ماہین سرور کا اردو کالم

بابا کی گڑیا

بچپن میں سب سے پہلے میرے بابا نے مجھے محبت بھرے لہجہے میں گڑیا کہا تھا۔

سن کر گڑیا بابا کی زباں سے۔۔
میں خود کو گڑیا سمجھ بیھٹی۔

اور پھر شروع ہوا میری زندگی کا سفر آہستہ آہستہ گھر کا ہر فرد مھجے گڑیا کہنے لگا گڑیا کی طرح اسپیشل خیال رکھا گیا اور یو ہی وقت گزرتا گیا اور مھجے خود کے لیےگڑیا سننا اچھا لگنے لگا میں خود کو اک خاص گڑیا سمجھنے لگی ایسی گڑیا جس نے صرف محبت دیکھی ہے اور صرف اپنا پن۔۔

میں نے دیکھی ہے محبت بہت خالص۔۔
میرے بابا بناوٹی تو نہیں ہے۔۔
دھوکہ تو نہیں کھاتی میری بابا کی آنکھیں کبھی۔۔
پھر کیوں دنیا کو جان کر بھی مھجے گڑیا پکارا۔۔

کبھی دھوکہ فریب نفرت ان سب کا تو بابا نے اپنی گڑیا کو تو بتایا ہی نہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے اور دنیا کی زبان میں گڑیا کا مطلب کیا ہے
بہرحال میں خود کو اصلی گڑیا سمجھ بیٹھی تھی ایسی گڑیا جیسے گھر میں جنت ملی اور میں کیوں نا خود کو گڑیا کہتی میرے بابا نے بتایا تھا میں گڑیا ہوں اور بس میں اپنے بابا کے لفظوں میں اتنا کھو گٸ کہ بابا کہ گرد ہی ان کی گڑیا کی زندگی گھومنے لگی پھر اک دن بابا کی گڑیا بڑی ہوگٸ بابا کہ دہلیس سے باہر کی دنیا میں قدم رکھاجہاں گڑیا کا مطلب بابا والی گڑیا نہیں تھا دنیا میں گڑیا کا مطلب وہ گڑیا جس سے صرف کھیل میں استمال کیا جاتا ہے دل بہلانے کہ لیے ہاتھ میں گڑیا پکڑا دی جاتی ہے وقت گزارا جاتا ہے اور نٸ گڑیا کہ آنے پر پرانی گڑیا کو استمال شدہ کھیلونوں میں پھینک دیا جاتا ہے کہ بہت کھیل لیا اس کے ساتھ اب اور نہیں اور پھر اس گڑیا کا صاف ستھری گڑیوں میں شمار نہیں کیا جاتا یہ کہہ کر کہ میری نٸ گڑیا جیسی کوٸ نہیں ہے۔ اور پھر پہلے والی گڑیا بے وجہ بےکار لگتی ہے نٸ گڑیا کہ آنے پر پرانی گڑیا کا کوٸ مقام نہیں رہتا پھر پرانی گڑیا اپنے آپ کو گڑیا کہتے ہوۓ بھی ڈرتی ہے۔

میں ڈرتی ہو بابا نا بولوں گڑیا مھجے۔۔
نوچ کھاتی ہے پھر دنیا مھجے۔۔
راستہ پر پیھنک کر آپکی گڑیا کو بابا۔۔
دنیا میرے ساتھ آپکو بھی برا ٹھراتی رہی۔۔

اس لیےاب جب کبھی میں سنتی ہو کہ کوٸ والد اپنی بیٹی کو گڑیا کہہ کر پکارتا ہے۔۔تو میں ڈر جاتی ہوں گڑیا لفظ پر دنیا کہ گڑیا کہ مطلب پر کہ بیٹیاں تو صرف بابا کی گڑیا ہے جو نٸ گڑیا کہ آنے پر بھی بابا کی وہی گڑیا رہتی ہے چاہیے کتنی ہی گڑیا آجاۓ بابا کی گڑیا کی جگہ کبھی نہیں بدلتی۔۔ جو پہلی پکار پر محبت چھلکی تھی بابا کی گڑیا کہنے پر اُس میں ہمیشہ اضافہ ہوا کبھی کمی نہیں آتی کیوں کہ ان کو اپنی گڑیا ہر حال ہر صورت قبول ہوتی ہے وہ کالی ہو گوری ہو معذور ہو بے زبان ہو بابا کی نظر سے کوٸ بابا کی گڑیا یعنی ان کی بیٹی کو دیکھ ہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔ کیونکہ اسکے لیے انسان کو خالص محبت کرنی ہوگی حفاظتی محبت کرنی ہوگی۔۔ بےگز بے مطلب محبت کرنی ہوگی تو ہی بابا کی گڑیا گڑیا بن کر محفوظ رہ سکتی ہے ورنہ تو دنیا کی نظر میں گڑیا انمول سہی لیکن وقتی رہی۔۔ خوبصوت سہی لیکن بدنصیب رہی۔۔ خوشیاں ہوکر بھی نا خوش رہی۔۔۔ گھر ہو کر بھی بے گھر رہی۔۔ محرم ہو کر بھی بے سہارا رہی۔۔ ساتھ ہو کر بھی اکیلی رہی۔۔ دنیا کہ لیے گڑیا ہمشہ کھیلونا رہی۔

میں کیھلونا تو نہیں ہوں۔۔
جیسی بھی ہو لیکن برٸ تو نہیں ہوں۔۔
ہاتھ کھینچ کر باہر کی دنیا میں نا پیھنک مھجے۔۔
نوچ کھاۓ گے یہاں کے بھیڑ مھجے۔۔
تمہارا ہسنا وقتی سہی میرا رونا مسلسل ہوجاۓ گا
دیکھ زارا میرے بابا کو ۔۔
اپنی گڑیا کو روتا دیکھ ان کو کچھ ہو جاۓ گا۔۔
نا کرو ایسا تم بعد میں پچتاٶں گے۔

ماہین سرور

  1. سید ذیشان شاہ کہتے ہیں

    بہت بہتر اچھی شروات ہے اللہ تمہے کامیابی دے

  2. سید ذیشان شاہ کہتے ہیں

    ماشاءاللہ بہت خوب اچھے کام کو جاری رکھیں میں اگلی طہریر کا منتظر رہوگا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
افتخار شاہد ابو سعد کی کتاب پی ڈی ایف میں…