بِھڑ کے چھتّے میں ہاتھ ڈال دیے
ایک جاہل نے بَل نکال دیے
بلب ایجاد ہونے والا ہے
کہاں جائیں گے پائمال دیے
اب جو بے چہرگی پہ روتے ہیں
ہم نے جس تِس کو خدوخال دیے
صبر اور وہ بھی بھوکے بچوں کا
پتھروں میں گلاب ڈھال دیے
ایک دو ہی سوال تھے میرے
تم نے وہ بھی ہنسی میں ٹال دیے
علی زیرک