عذاب سا ہے دل نامراد پر کب سے
کھڑا ہوں میں روش گرد باد پر کب سے
کبھی ملو گے کہیں تو ملو گے جیتے جی
میں جی رہا ہوں اسی اعتماد پر کب سے
جو باڑھ آئی تو بے چارہ بہہ گیا خود ہی
جو بند باندھ رہا تھا فساد پر کب سے
وہ زندگی جو کبھی مڑ کے دیکھتی بھی نہیں
میں مر رہا ہوں اسی بد نہاد پر کب سے
مرے قلم پہ بھی شب خون پڑ گیا آخر
محاصرہ تھا مری جائیداد پر کب سے
میں روشنی کو بھلا دوں تو کیا تعجب ہے
برس رہا ہے دھواں میری یاد پر کب سے
مرے وجود میں کیا شاہکار ہے پنہاں
چڑھا رہا ہے زمانہ خراد پر کب سے
تمام شہر سماعت لرز اٹھا قیصرؔ
نکل پڑی ہے خموشی جہاد پر کب سے
قیصرالجعفری