یوں صحبتوں کے یقیناً اثر بھی آتے ہیں
جو دستیاب نہ ہوں وہ نظر بھی آتے ہیں
تمہارے لمس کی حدّت ہی ان کو کافی ہے
زمیں میں دفن خزانے ابھر بھی آتے ہیں
میں ٹوٹا کاسہ لیے اس لئے چلی آئی
سنا تھا اب کے یہاں کوزہ گر بھی آتے ہیں
تمہارے دل میں ہمیں مستقل نہیں رہنا
کہ زندگی میں اچانک سفر بھی آتے ہیں
ہمارے بیچ توقف کا یہ خلاصہ ہے
ہم اتنی دیر میں جاں سے گزر بھی آتے ہیں
کہا یہ کس نے کہ اپنا کیا بھگتنا ہے
ہمارے حصے میں اوروں کے شر بھی آتے ہیں
جو گفتگو سے وہاں ارتعاش ہو پیدا
تاثرات مری جاں ادھر بھی آتے ہیں
تمہارے نام کی تختی ہے دل پہ آویزاں
مکیں مکان کے کیا پوچھ کر بھی آتے ہیں؟
ہماری چپ کو ہزیمت سمجھنے والے سن
پھرے یہ سر تو جوابات دھر بھی آتے ہیں
تمام لوگ ہی نشتر چبھونے والے نہیں
کہ زندگی میں کئ بےضرر بھی آتے ہیں
تو معجزہ ہے؛ تجھے دیکھ کر یقیں آۓ
فرشتے بن کے کبھی یوں بشر بھی آتے ہیں
شہزین فراز