آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریشہزین وفا فراز

یوں صحبتوں کے یقیناً اثر

شہزین فراز کی ایک اردو غزل

یوں صحبتوں کے یقیناً اثر بھی آتے ہیں
جو دستیاب نہ ہوں وہ نظر بھی آتے ہیں

تمہارے لمس کی حدّت ہی ان کو کافی ہے
زمیں میں دفن خزانے ابھر بھی آتے ہیں

میں ٹوٹا کاسہ لیے اس لئے چلی آئی
سنا تھا اب کے یہاں کوزہ گر بھی آتے ہیں

تمہارے دل میں ہمیں مستقل نہیں رہنا
کہ زندگی میں اچانک سفر بھی آتے ہیں

ہمارے بیچ توقف کا یہ خلاصہ ہے
ہم اتنی دیر میں جاں سے گزر بھی آتے ہیں

کہا یہ کس نے کہ اپنا کیا بھگتنا ہے
ہمارے حصے میں اوروں کے شر بھی آتے ہیں

جو گفتگو سے وہاں ارتعاش ہو پیدا
تاثرات مری جاں ادھر بھی آتے ہیں

تمہارے نام کی تختی ہے دل پہ آویزاں
مکیں مکان کے کیا پوچھ کر بھی آتے ہیں؟

ہماری چپ کو ہزیمت سمجھنے والے سن
پھرے یہ سر تو جوابات دھر بھی آتے ہیں

تمام لوگ ہی نشتر چبھونے والے نہیں
کہ زندگی میں کئ بےضرر بھی آتے ہیں

تو معجزہ ہے؛ تجھے دیکھ کر یقیں آۓ
فرشتے بن کے کبھی یوں بشر بھی آتے ہیں

شہزین فراز

شہزین وفا فراز

میرا‌ نام شہزین وفا فراز ہے۔ میں ایک شاعرہ ہوں۔ بنیادی تعلق حیدرآباد سے ہے لیکن طویل عرصے سے کراچی میں مقیم ہوں۔ ماسٹرز کی تعلیم حیدرآباد سے لی۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستگی رہی۔ شعر کہنے کا آغاز گیارہ سال کی عمر سے کیا۔ کلام باقاعدہ اخبارات و رسائل میں شائع کروانے کا سلسلہ ٢٠٢٢ سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ تین انتخابی کتب "ہم صورت گر کچھ خوابوں کے”، "لطیفے جذبے” اور "سخن آباد” میں میرا کلام شامل ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں نئ دہلی (انڈیا) سے ایک معروف مصنف رضوان لطیف خانصاحب کی کتاب "تذکرۂ سخنوراں” میں معروف شاعر جناب عبداللہ خالد صاحب کے مختلف مصارع پر طرحی کلام کہنے والے شعراء و شاعرات میں میرا‌ نام‌ بھی شامل کیا گیا ہے الحمداللہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button