یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سَحر تک کوئی نہیں، کوئی ہے
نہ کوئی چاپ نہ سایہ کوئی نہ سرگوشی
مگر یہ دل کہ بضد ہے، نہیں نہیں کوئی ہے
ہر اک زباں پہ اپنے لہو کے ذائقے ہیں
نہ کوئی زہرِ ہلاہل نہ انگبیں کوئی ہے
بھلا لگا ہے ہمیں عاشقوں کا پہناوا
نہ کوئی جیب سلامت نہ آستیں کوئی ہے
دیارِ دل کا مسافر کہاں سے آیا ہے
خبر نہیں مگر اک شخص بہتریں کوئی ہے
یہ ہست و بود یہ بود و نبود وہم ہے سب
جہاں جہاں بھی کوئی تھا وہیں وہیں کوئی ہے
فرازؔ اتنی بھی ویراں نہیں مری دنیا
خزاں میں بھی گُلِ خنداں کہیں کہیں کوئی ہے
احمد فراز