جب مرا ہر ایک دکھ میرا ہنر ہو جائے گا
زندگی کا یہ سفر آسان تر ہو جائے گا
دل میں اک موہوم سا جذبہ کہیں جاگا تھا کل
جانتی کب تھی یہ اک دن اس قدر ہو جائے گا
کیا خبر تھی ریگزاروں میں ہی گزرے گی حیات
یہ سفر دشوار سے دشوار تر ہو جائے گا
عشق کی لَو ایک نہ اک دن جلا دے گی مجھے
پھر مرا ہر ایک دکھ مثلِ قمر ہو جائے گا
خاک ہو جائیں گے ہم تعبیر کی حسرت لئے
قریۂ خوابِ ابد اجڑا نگر ہو جائے گا
کرب کے لمحات میں بھی تم یقیں رکھنا کہ بس
عرصۂ شامِ الم آخر بسر ہو جائے گا
جب کبھی مَیں ہر خبر سے بے خبر ہو جاؤں گی
وہ مرے ہر ایک دکھ سے باخبر ہو جائے گا
اب یہاں بس شور ہے اور سسکیاں ہیں چار سُو
دیکھ لینا یہ جہاں وحشت کا گھر ہو جائے گا
خوف آتا ہے مجھے شاہین ڈھلتی شام سے
جب وفا کا نام بھی گردِ سفر ہو جائے گا
نجمہ کھوسہ