یہ نہیں دیکھتا کوئی بھی عزاداری میں
دل بھی پھٹ جاتے ہیں کچھ ایسی اداکاری میں
میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا
ہار جائے گا قبیلہ مری سرداری میں
بس یہی ہے کہ ترے پاس چلا آیا ہوں
اور کچھ سوجھا نہیں تھا مجھے بے زاری میں
آپ تو یوں ہی برا مان گئے ہیں صاحب
بٌڑبٌڑاتا ہوا بندہ ہوں میں بیماری میں
اعلیٰ تعلیم پہ ویسے بھی سبھی کا حق ہے
خواب کو داخلہ مل جائے گا بیداری میں
میں نے کاغذ سے بنانا ہے کسی کٌن سے نہیں
وقت لگ جائے گا اس پھول کی تی٘اری میں
گھر کے مصروف توجہ میں خلل کہتے ہیں
آدمی کھانس بھی سکتا نہیں بے کاری میں
ہم بٌرے ہو کے بھی دل میں ہیں تمھارے ورنہ
میلے کپڑے کوئی رکھتا نہیں الماری میں
یاد خانے میں زمانہ نہیں بھرتا میں ضمیر
یوں بھی محدود نشستیں ہیں مری لاری میں
ضمیر قیس