- Advertisement -

یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی کی ایک عمدہ غزل

یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے

نیک لوگوں میں مجھے نیک گِنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے

جڑ اکھڑنے سے جھکی رہتی ہیں شاخیں میری
دور سے لوگ ثمَر بار سمجھتے ہیں مجھے

روشنی سرحدوں کے پار بھی پہنچاتا ہوں
ہم وطن اس لئے غدّار سمجھتے ہیں مجھے

وہ جو اُس پار ہیں اُن کے لئے اِس پار ہوں میں
یہ جو اِس پار ہیں، اُس پار سمجھتے ہیں مجھے

میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے

میں تو یوں جپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے

میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے

لاش کی طرَح سرِ آبِ رواں ہوں شاہدؔ
ڈوبنے والے مدد گار سمجھتے ہیں مجھے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ادا جعفری کی ایک غزل